مجلسِ فخر بحرین برائے فروغِ اُردو: سراج اور نگ آبادی - شخصیت و کلام کے آئینے میں..: مرٹھواڑہ میں اردو غزل کے چراغ - سراج اورنگ آبادی سراج اور نگ آبادی - شخصیت و کلام کے آئ...
مجلسِ فخر بحرین برائے فروغِ اُردو
جمعہ، 9 ستمبر، 2016
بدھ، 7 ستمبر، 2016
سراج اور نگ آبادی - شخصیت و کلام کے آئینے میں..
مرٹھواڑہ میں اردو غزل کے چراغ - سراج اورنگ آبادی
سراج اور نگ آبادی - شخصیت و کلام کے آئینے میں
مراٹھواڑہ(مہاراشٹر ) کی ادبی زمین ہمیشہ سے ہی شعر و سخن کے لئے بڑی زرخیز رہی ہے۔اس کے لئے ہم ماضی میں ولی ، سراج ، سکندر علی وجد اور احسن یوسف زئی کی مثال دیکھیں یا پھر حال میں بشر نواز، شمس جالنوی اور عرفان پربھنوی کی مثال لے سکتے ہیں۔ولی اورنگ آبادی کی اگر بات کی جائے تو اردو شاعری میں اولیت کا تاج ولی کے ہی سر جاتاہے۔ولی سے قبل اردو غزل صرف ناز وادا ،حسن وجمال اور خارجی پہلوؤں تک محدود تھی۔اس میں کوئی گہرے تجربے یااحساس نہیں ہوا کرتے تھے۔ولی نے اس میں زندگی کے تجربات ،تنوع اور داخلیت کو سمو کر غزل کے دائرے میں جیسے پوری کائنات کو سمیٹ لیا ہے۔
ہم اس مضمون میں مراٹھواڑہ کے ہی اک ایسے شاعر کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیں گے۔جنہوں نے مراٹھواڑہ کے اردو ادب کی تاریخ میں اپنانام طلائی روشنائی سے لکھوایا ہے۔اور انہیں ہم سب سراج اورنگ آباد ی کے نام سے جانتے ہیں۔راقم الحروف کو سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں تب سے ہی دلچسپی ہوئی جب وہ دسویں جماعت کا طالب علم ہوا کرتا تھااور دسویں جماعت کی درسی کتاب میں سراج اورنگ آبادی کی غزل شامل نصاب تھی۔یہی وجہ رہی کہ میں جب اور نگ آباد میں پڑھائی کے لئے تھا تب خاص طور پر 'کالا دروازہ 'سے متصل قبرستان میں موجود سراج اورنگ آباد ی کی قبر کی بڑی اہتمام سے زیارت کی۔جن کی شاعری نصابی کتاب میں پڑھی ،اس عظیم شاعر کی قبر پر درود پڑھ کر دل کو بڑی تسکین ہوئی۔
دکنی شعراء میں ولی کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر سراج اورنگ آبادی ہیں۔ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی اور ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اپنی کتاب 'شعور و فن'میں لکھتے ہیں کہ سراج کا مزاج بچپن سے ہی حسن پرستی کی طرف مائل تھا۔عنفوان شباب ہی میں ان پر ایک طرح کی مجنونانہ کیفیت طاری ہوگئی تھی۔مجذوبیت کے عالم میں انہوں نے فارسی زبان میں بہت سے اشعار کہے۔جذب کی کیفیت ختم ہونے پر وہ شاعری ترک کرکے صوفی اور فقراء کے ساتھ رہنے لگے۔
سراج کے کلیات میں غزلیں، قصیدے،رباعیات اور مثنوی شامل ہیں۔یوں تو ان کا سارا کلام ہی شعریت سے بھرپور ہے، لیکن وہ اپنی مثنوی'بوستانِ خیال'اور اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔بوستانِ خیال میں تقریباً 1160؍اشعار ہیں۔یہ مثنوی ایک طرح سے سراج کی آپ بیتی ہے ،جسے انہوں نے سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔سراج عیسوی سنہ 1734ء میں بیس سال کی عمر میں حضرت شاہ عبدالرحمن چشتیؒ سے بیعت ہوئے۔اسی زمانے میں انہوں نے اردو میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔اور عیسوی سنہ 1740ء کے بعد انہوں نے اپنے مرشد کے حکم پر شاعری ترک کردی۔سراج کا شعری سرمایہ ان پانچ چھ سال ہی کا نتیجۂ فکر ہے۔
معروف محقق جمیل جالبی کے مطابق 'بوستان خیال' یہ مثنوی اپنے روانی ، سادگی اور شدید عشقیہ کیفیات کے بے باکانہ اظہارکی وجہ سے پُراثر ہے۔اورریختہ کی مثنویوں کی ابتدائی روایات میں ایک اہم کڑی کا درجہ رکھتی ہے۔
سراج کی شاعری میں روحانی کیفیات اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں تصوف کا فلسفہ بھی ہے ، اخلاق وحکمت کی باتیں بھی اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر بھی۔مثلاً
شرابِ معرفت پی کر جو کوئی مجذو ب ہوتا ہے
در و دیوار اس کوں مظہرِ محبوب ہوتا ہے
سراج کے کلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کے لئے پری ، من ہرن، گل بدن،جانِ سراج اور من موہن جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ذیل کے اشعار میں ہم مذکورہ تشبیہات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں:
اس گلبدن نشترِ مژگاں کوں دیکھ کر
آیا ہے جوش خوں سے رگِ کوں پیچ و تاب
میں کہا رحم پتنگوں پہ کراے جانِ سراج
تب کہا شمعِ شب تار ہوں کن کا ان کا
کہاں ہے گلبدن موہن پیارا
کہ جوں بلبل ہے نالاں دل ہمارا
سراج کی شاعری سے داخلیت صاف طورپر جھانکتی ہے۔ذیل کے اشعار سے یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے:
تجھے کہتا ہوں اے دل عشق کا اظہار مت کیجو
خموشی کے مکاں بات اور گفتار مت کیجو
پُتلی ہماری نین کے جھروکے میں بیٹھ کر
بیکل ہو جھانکتی ہے پیاراکب آئے گا
سراج کی شاعری کا ایک اہم موضوع تصوف ہے۔ ملاحظہ ہو :
ہمیشہ دورِ الم مختلف ہے
کہ گردش میں ہیں ہر دم نیلگوں
ہم فقیروں پہ ستم جیتے رہو
خوب کرتے ہو بجا کرتے ہو
روشن ہے اے سراج کہ فانی ہے سب جہاں
مظرب ہے جام غلط انجمن غلط
مراٹھواڑہ(مہاراشٹر ) کی ادبی زمین ہمیشہ سے ہی شعر و سخن کے لئے بڑی زرخیز رہی ہے۔اس کے لئے ہم ماضی میں ولی ، سراج ، سکندر علی وجد اور احسن یوسف زئی کی مثال دیکھیں یا پھر حال میں بشر نواز، شمس جالنوی اور عرفان پربھنوی کی مثال لے سکتے ہیں۔ولی اورنگ آبادی کی اگر بات کی جائے تو اردو شاعری میں اولیت کا تاج ولی کے ہی سر جاتاہے۔ولی سے قبل اردو غزل صرف ناز وادا ،حسن وجمال اور خارجی پہلوؤں تک محدود تھی۔اس میں کوئی گہرے تجربے یااحساس نہیں ہوا کرتے تھے۔ولی نے اس میں زندگی کے تجربات ،تنوع اور داخلیت کو سمو کر غزل کے دائرے میں جیسے پوری کائنات کو سمیٹ لیا ہے۔
ہم اس مضمون میں مراٹھواڑہ کے ہی اک ایسے شاعر کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیں گے۔جنہوں نے مراٹھواڑہ کے اردو ادب کی تاریخ میں اپنانام طلائی روشنائی سے لکھوایا ہے۔اور انہیں ہم سب سراج اورنگ آباد ی کے نام سے جانتے ہیں۔راقم الحروف کو سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں تب سے ہی دلچسپی ہوئی جب وہ دسویں جماعت کا طالب علم ہوا کرتا تھااور دسویں جماعت کی درسی کتاب میں سراج اورنگ آبادی کی غزل شامل نصاب تھی۔یہی وجہ رہی کہ میں جب اور نگ آباد میں پڑھائی کے لئے تھا تب خاص طور پر 'کالا دروازہ 'سے متصل قبرستان میں موجود سراج اورنگ آباد ی کی قبر کی بڑی اہتمام سے زیارت کی۔جن کی شاعری نصابی کتاب میں پڑھی ،اس عظیم شاعر کی قبر پر درود پڑھ کر دل کو بڑی تسکین ہوئی۔
دکنی شعراء میں ولی کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر سراج اورنگ آبادی ہیں۔ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی اور ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اپنی کتاب 'شعور و فن'میں لکھتے ہیں کہ سراج کا مزاج بچپن سے ہی حسن پرستی کی طرف مائل تھا۔عنفوان شباب ہی میں ان پر ایک طرح کی مجنونانہ کیفیت طاری ہوگئی تھی۔مجذوبیت کے عالم میں انہوں نے فارسی زبان میں بہت سے اشعار کہے۔جذب کی کیفیت ختم ہونے پر وہ شاعری ترک کرکے صوفی اور فقراء کے ساتھ رہنے لگے۔
سراج کے کلیات میں غزلیں، قصیدے،رباعیات اور مثنوی شامل ہیں۔یوں تو ان کا سارا کلام ہی شعریت سے بھرپور ہے، لیکن وہ اپنی مثنوی'بوستانِ خیال'اور اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔بوستانِ خیال میں تقریباً 1160؍اشعار ہیں۔یہ مثنوی ایک طرح سے سراج کی آپ بیتی ہے ،جسے انہوں نے سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔سراج عیسوی سنہ 1734ء میں بیس سال کی عمر میں حضرت شاہ عبدالرحمن چشتیؒ سے بیعت ہوئے۔اسی زمانے میں انہوں نے اردو میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔اور عیسوی سنہ 1740ء کے بعد انہوں نے اپنے مرشد کے حکم پر شاعری ترک کردی۔سراج کا شعری سرمایہ ان پانچ چھ سال ہی کا نتیجۂ فکر ہے۔
معروف محقق جمیل جالبی کے مطابق 'بوستان خیال' یہ مثنوی اپنے روانی ، سادگی اور شدید عشقیہ کیفیات کے بے باکانہ اظہارکی وجہ سے پُراثر ہے۔اورریختہ کی مثنویوں کی ابتدائی روایات میں ایک اہم کڑی کا درجہ رکھتی ہے۔
سراج کی شاعری میں روحانی کیفیات اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں تصوف کا فلسفہ بھی ہے ، اخلاق وحکمت کی باتیں بھی اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر بھی۔مثلاً
شرابِ معرفت پی کر جو کوئی مجذو ب ہوتا ہے
در و دیوار اس کوں مظہرِ محبوب ہوتا ہے
سراج کے کلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کے لئے پری ، من ہرن، گل بدن،جانِ سراج اور من موہن جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ذیل کے اشعار میں ہم مذکورہ تشبیہات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں:
اس گلبدن نشترِ مژگاں کوں دیکھ کر
آیا ہے جوش خوں سے رگِ کوں پیچ و تاب
میں کہا رحم پتنگوں پہ کراے جانِ سراج
تب کہا شمعِ شب تار ہوں کن کا ان کا
کہاں ہے گلبدن موہن پیارا
کہ جوں بلبل ہے نالاں دل ہمارا
سراج کی شاعری سے داخلیت صاف طورپر جھانکتی ہے۔ذیل کے اشعار سے یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے:
تجھے کہتا ہوں اے دل عشق کا اظہار مت کیجو
خموشی کے مکاں بات اور گفتار مت کیجو
پُتلی ہماری نین کے جھروکے میں بیٹھ کر
بیکل ہو جھانکتی ہے پیاراکب آئے گا
سراج کی شاعری کا ایک اہم موضوع تصوف ہے۔ ملاحظہ ہو :
ہمیشہ دورِ الم مختلف ہے
کہ گردش میں ہیں ہر دم نیلگوں
ہم فقیروں پہ ستم جیتے رہو
خوب کرتے ہو بجا کرتے ہو
روشن ہے اے سراج کہ فانی ہے سب جہاں
مظرب ہے جام غلط انجمن غلط
آسماں اے آسماں
آسماں اے آسماں
خلیل الرحمن اعظمی
حقوق ………… راشدہ خلیل
طبع اوّل ………… ۲۰۰۰ء
تعداد ………… ۵۰۰ (پانچ سو)
سرورق ………… غضنفر زیدی
ڈیپارٹمنٹ آف فائن آرٹس
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
تقسیم کار
٭ اعظمی میموریل سوسائٹی، اُردو سوسائٹی، سرسید نگر، علی گڑھ
٭ ایجوکیشنل بک ہائوس، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ
٭ مکتبہ جامعہ، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ
کامران خلیل
سلمان خلیل
عدنان خلیل
ہْمامرزا
کے نام
راشدہ خلیل
...............................
٭کاغذی پیرہن …………
٭ نیا عہد نامہ …………
٭ زندگی اے زندگی …………
وضاحتیں
خلیل صاحب کو جدا ہوئے ایک لمبی مدت ہوگئی۔ اس مدت میں بار بار یہ خیال آیا کہ خلیل صاحب کی وہ کتابیں جو بازار میں دستیاب نہیں ہیں، ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔لیکن یہ خیال کسی نہ کسی وجہ سے عملی جامہ نہ پہن سکا۔ خدا بھلا کرے شاہد مہدی (وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامی، نئی دہلی) کا جنہوں نے خلیل صاحب کے تمام شعری مجموعوں کو کلیات کی شکل میں شائع کرنے کی تحریک کی۔ کلیات کی تیاری کا کام شہریارؔ کے سپرد کیا گیا۔ شہریارؔ نے ان مجموعوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اور شاہد مہدیؔ کو یہ مشورہ دیا کہ فی الحال کلیات کی جگہ ایک انتخاب شائع کیا جائے جس میں خلیل صاحب کی ہر دور کی شاعری کے تمام اہم رنگ آجائیں۔ شاہد مہدی اور میں نے اس سے اتفاق کیا۔ شہریار نے اس انتخاب کے سلسلے میں خلیل صاحب کے بعض دوستوں اور عزیز شاگردوں سے مشورہ کیا۔ اب یہ انتخاب ’’آسماں اے آسماں‘‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے۔ میں شاہد مہدیؔ اور اپنے بھائی عبدالوہاب خاں سلیم صاحب (مقیم امریکا) کی بہت مشکور ہوں کہ ان کے تعاون سے اس انتخاب کو منظر عام پر لانے میں بڑی سہولت ملی۔ انتخاب کی اشاعت کے تمام تر مراحل میرے بیٹے سلمان خلیل کی بھاگ دوڑ اور محنت سے طے ہوئے۔ گردپوش شاہد مہدی کے مشورے سے جناب غضنفر زیدی صاحب، ڈیپارٹمنٹ آف فائن آرٹس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے تیار کیا۔ رتن گپتا کے زیر اہتمام یہ انتخاب شائع ہوا۔ کتاب کی کمپیوٹر کمپوزنگ محمد شہزاد نے کی۔ برادرم شمس الرحمن فاروقی نے خلیل صاحب کی شخصیت اور شاعری پر مختصر رائے لکھی۔ محمود ہاشمی نے دیپاچہ تحریر کیا۔ خلیل صاحب کے بچپن کے ساتھی ڈاکٹر اخلاق احمد کا تاثراتی اور سوانحی مضمون بھی شامل ہے۔ عزیزم ابوالکلام قاسمی سے شہریار اور سلمان خلیل جب تب مشورہ کرتے رہے ہیں۔
خلیل صاحب حیات ہوتے تو اس کتاب کا انتساب اپنے بچوں کے نام کرتے، اس یقین کے ساتھ بچوں کے نام یہ کتاب معنون ہے۔
۲۰؍ اگست ۲۰۰۰ ء
راشدہ خلیل
سیکرٹری
اعظمی میموریل سوسائٹی
اردو باغ، سرسید نگر، علی گڑھ
کچھ اس انتخاب کے بارے میں
خلیل صاحب کو اس دنیا سے گئے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا۔ دنیا ویسی نہیں تو اس سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ زمانہ بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ مسلمان عام طور سے اور اردو والے خاص طور سے اپنے برگزیدہ لوگوں کو بھلانے میں بہت ہی عجلت سے کام لیتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ مرنے والے کی برائیوں کو جہاں تک ہو بُھلا دو اور اچھائیوں کو یاد رکھو لیکن ہم تو اچھائیوں کو یاد کرنے سے بھی کتراتے ہیں مبادا ہماری برائیوں پر اوروں کی نظریں نہ پڑنے لگیں۔
نہ جانے کیوں خلیل صاحب کا نام آتے ہی میرے اندر دنیا اور دنیا والوں کے لئے عجیب سی نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں حتی الامکان خلیل صاحب پر کچھ کہتے اور یا لکھتے ہوئے گھبراتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ نفرت چاہے کسی وجہ سے ہو ایک اسفل جذبہ ہے جس کا سب سے بڑا اثر نفرت کرنے والے پر پڑتا ہے۔ یہ شاید میری کمزوری ہی تھی کہ میں اپنے کو بچانے کے چکر میں خلیل صاحب کی یاد سے دور بہت دور ہوتا گیا۔ پشیمانی کے یوں تو کئی مقام میری زندگی میں آئے لیکن خلیل صاحب کو بھول جانے یا ٹھیک طرح یاد نہ رکھنے کی پشیمانی میرے پورے وجود پر چھا گئی۔ اور اب میں ایک انسان سے زیادہ پر چھائیں کی شکل میں زندہ ہوں۔
خلیل صاحب نے شعر وادب کو کمبل کی طرح اوڑھا اور بچھایا تھا۔ ان کا ایک ایک لمحہ ادب اور تدریس کے لئے وقف تھا۔ زندگی سے بھی انہیں بہت پیار تھا ایک عام انسان کی طرح ان میں کمزوریاں بھی تھیں لیکن ان کمزوریوں کا اثر کبھی دوسرے پر نہیں پڑا۔ خود ترحمی سے انہیں نفرت تھی۔ عزت نفس کا جتنا اور جیسا خیال انہیں رہتا تھا میں نے کم لوگوں میں دیکھا ہے۔ اپنی تعریف سے انہیں بھی خوشی ہوتی تھی لیکن اس کو حاصل کرنے کا نہ تو کوئی جتن کرتے تھے اور نہ اپنی سطح سے اترتے تھے۔ دنیاوی ترقی سے تو نہ جانے کیوں انہیں نفرت سی تھی۔ انہیں جو کچھ ملا ان کے نہ چاہتے ہوئے ملا۔ جس ڈھب سے وہ اس دنیا سے گئے اس کی شان ہمیشہ سلامت رہے گی۔
خلیل الرحمن اعظمی، اختر الایمان اور ناصر کاظمی ۱۹۴۷ء کے بعد کی نئی شاعری کے Trend Setter ہیں۔ اس ادبی سچ سے کوئی بد دیانت ہی انکار کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہماری اردو زبان میں ایسے بددیانت اللہ کے کرم سے کافی ہیں۔ خلیل صاحب کی شاعری انفرادی اداسی اور تنہائی کو سماج اور معاشرے کی تنہائی اور اداسی سے جوڑنے کی ایک مسلسل کوشش ہے۔ خلیل صاحب چونکہ نقاد بھی تھے اور اپنے عصری ادب کے بارے میں ایک الگ رائے رکھتے تھے۔ اس لئے بہت سے پڑھنے والے ان کی شاعری میں وہ سب کچھ تلاش کرنے لگے جس کا ان کی تنقید میں ذکر تھا اور اس طرح ان کی شاعری میں کچھ لوگ تو جان بوجھ کر اور کچھ نادانی میں سماج مخالف عناصر دیکھنے لگے۔ ان کی تنقیدی راست گوئی کے شکار کچھ مخصوص لوگ ایک سازش کے تحت ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے کبھی کبھی بددل ہو کر یا غصے میں خلیل صاحب نے ان کا جارحانہ جواب دیا جو ایک طرح سے ان کے خلاف گیا۔ ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ خلیل صاحب کی شاعری نئی ہونے کے باوجود سو فیصد سماجی سروکار کی شاعری ہے۔ ہاں ان سروکاروں کا رشتہ اعلیٰ انسانی اقدار سے ملتا ہے جو ماضی اور حال سے زیادہ مستقبل کا اشاریہ ہیں۔
آج ہم جس زمانے میں اور جس طرح زندہ ہیں کیا کوئی سرپھرا ایسا نہیں جو یہ اعلان کرے کہ انسان مرچکا ہے۔ مگر ہم سب نے تو سچ نہ سننے اور سچ نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم سے یہ امید کیوں؟ کہنے والے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نژ کا دور ہے اور جب لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے کم ہی سہی شاعری بھی ہورہی ہے اور نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنے دور کے دکھی انسان کی آواز شاعری میں زیادہ موثر طور پر سنائی دے رہی ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو ٹھہر ٹھہر کے خلیل صاحب کے اس انتخاب کو پڑھئے آپ مجھ سے اتفاق کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پائیں گے۔
’’آسماں اے آسماں‘‘ خلیل صاحب کے تین مجموعوں ’’کاغذی پیرہن‘‘ ’’نیا عہد نامہ‘‘ اور ’’زندگی اے زندگی‘‘ کا انتخاب ہے۔ انتخاب میں نے کیا ہے۔ (یہ الگ بات کبھی کبھی بعض دوستوں سے بھی رائے لے لی ہے) انتخاب کی ساری ذمہ داری میری ہے۔ خلیل صاحب کی شاعری کے مختلف رنگوں سے میں بخوبی واقف ہوں، اسی غلط فہمی کی وجہ سے مجھ میں اس کام کو انجام دینے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اس سے پہلے دوبار خلیل صاحب کی شاعری کا انتخاب کرچکا ہوں اور پڑھنے والوں سے داد پا چکا ہوں۔ خلیل صاحب کے ذاتی کتب خانے میں ان کے جو مجموعے محفوظ ہیں ان پر خود ان کے ہاتھ کی اصطلاح اور کانٹ چھانٹ ہے۔ انتخاب کرنے میں اس سے بڑی مدد ملی ہے۔ بیگم خلیل اور شاہد مہدی نے جس اعتماد اور بھروسے پر انتخاب کا کام میرے سپرد کیا اس کا حق میں نے کہاں تک ادا کیا ہے اس کا آخری فیصلہ تو آپ پڑھنے والوں ہی کو کرنا ہے۔ اپ یقین کیجئے میں نے یہ کام پوری ادبی سنجیدگی، نیک نیتی اور ذمہ داری سے کیا ہے۔
۲۲ ؍ اگست ۲۰۰۰ ء
شہریار
۸، ۸۱، ۴
کبیر کالونی، جمال پور، علی گڑھ
خلیل صاحب… ذات کا افسانہ
(’’آسماں اے آسماں‘‘ کے حوالہ سے)
خلیل الرحمن اعظمی کی ذات کا افسانہ۔ ایک پورے عہد اور ایک پوری نسل کا افسانہ ہے۔ خلیل صاحب نے اپنے پہلے مجموعہ ’’کاغذی پیرہن‘‘ میں اپنی بے حد مقبول نظم آپ بیتی کو شامل کیا تھا۔ اس نظم کا ابتدائی شعر یہ ہے۔
یوں تو مرنے کے لئے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لئے زہر پیا ہے میں نے
یہ شعر اور یہ نظم ۱۹۴۷ء اور اسی کے اطراف میں جوان ہونے والی نسل کا بنیادی استعارہ ہے۔ خلیل صاحب نے مشرقی یوپی کے دیہی ماحول میں زندگی کا سفر شروع کیا تھا۔ علم اور تجربات کی مختلف منزلوں سے گزرتے ہوئے وہ علی گڑھ پہنچے۔ اس وقت مسلم یونیورسٹی کا علمی اور ادبی ماحول اپنے تازہ دم نشاۃ الثانیہ کا گہوارہ بنا تھا۔ تمام ؟؟؟؟؟ روزگار علی گڑھ میں موجود تھے۔ رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، جذبی صاحب، خورشید الاسلام جیسی شخصیتیں شعبہ اردو سے وابستہ تھیں۔ ان شخصیات کی فہرست میں داخل ہونے والے نئے ذہین ممتاز شاعر اور ناقد خلیل الرحمن اعظمی نے شعبہ اردو کو ایک نئی فضا سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ خلیل صاحب کی شخصیت میں علمی متبحر بھی تھا اور اپنے عہد اور اپنے ادب کو پروقار انداز میں جینے کا حوصلہ بھی۔ خلیل صاحب اس عہدے میں اپنے معاصرین میں بے حد مقبول تھے۔ ان سے ملنے کے لئے برصغیر کے نئے ادیب اور شاعر علی گڑھ پہنچتے رہتے تھے۔ آج کے شہریار ان دنوں کنور اخلاق محمد خاں کے نام سے شاعری شروع کرچکے تھے اور خلیل صاحب کے ہمراہ ہی رہتے تھے۔ علی گڑھ کی ادبی فضا پر ایک تازہ کار آسمان کا سایہ تھا اور خلیل صاحب اپنے ادبی نقطہ نظر اور نئے تخلیقی ذہن کے ذریعہ نہ صرف علی گڑھ بلکہ پورے برصغیر کے لئے ایک زبردست ادبی ستون بنے ہوئے تھے۔ ترقی پسند تحریک ختم ہورہی تھی اور نئے افکار وخیالات سے ادبی ماحول میں زبردست ارتعاش پیدا ہوچکا تھا۔ اسی زمانہ میں خلیل صاحب سے میرا رابطہ قائم ہوا میری ذہنی تشکیل میں انہوں نے بہت بڑا حصہ لیا۔ کلاسیکی ادب کے مطالعہ کو پورا کرنے اور آزاد ذہن کے ساتھ جدید راہوں کی جستجو کے لئے خلیل صاحب نے ہی اکسایا۔ میرے دوسرے ہم عصر بھی خلیل صاحب کی شخصیت اور علمیت سے متاثر ہوئے اور اس طرح خلیل صاحب کی ذات کا افسانہ جدید ذہن اور جدید نسل کی ذات کا افسانہ بن گیا۔
خلیل صاحب کے شعری مزاج میں اور ان کی تہذیبی سائیکی میں ایسی گیرائی اور گہرائی تھی کہ ان کے تخلیقی مزاج کی آہستہ خرامی پوری نسل کا مزاج بن گئی محسوس کیا جانے لگا کہ شعری تخلیق میں جس قدر تہہ نشیں شدت ہوگی، شعر کا تاثر اسی قدر افزوںہوگا۔ بلند آہنگی ترقی پسند شاعری کا شیوہ تھا۔ جس سے جوش اور جذبہ تو پیدا ہوسکتا ہے لیکن تہہ داری مفاہیم کی علامتی کائنات دسترس میں نہیں آتی۔ یہی وجہ کیف تھا جو خلیل صاحب کے اشعار میں مفاہیم کی تہہ داری کے ساتھ موجود تھا۔ عہد کی تاریخ پیوست ہے۔ جس کا سلسلہ شہریار سے شمس الرحمن فاروقی تک پھیلا ہوا ہے۔
خلیل صاحب کی شاعری تخلیقات سے جدید نسل کا وہی تعلق ہے جو ٹی۔ ایس ایلیٹ اور ان کے ہم عصر شعراء کا ایذرا پائونڈ سے تھا، خلیل صاحب واقعی ایذرا پائونڈ کی طرح نئے ذہن کے لئے ایک سائبان تھے۔ ایلیٹ اور ان کے معاصرین جدید شعراء ایک بار ایذرا پائونڈ کے مقابل نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے پائونڈ کو تاج محل کا ایک Replica پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم‘ جو کسی کی تعظیم نہیں کرتے صرف آپ کا احترام کرتے ہیں۔‘‘
خلیل صاحب کا نام لکھتے ہوئے اب تک میں لاشعوری طور پر مجبور ہوا ہوں کہ ان کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا استعمال کروں ظاہر ہے کہ یہ ان کا احترام ہے کہ بے حد بے تکلفی اور قربت کے باوجود میں کبھی ان کو ’’خلیل‘‘ یا ’’خلیل اعظمی‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا۔ یہ احترام اس لئے بھی ہے کہ خلیل صاحب نے ’’آتش‘‘ پر یا دوسرے کلاسیکی شعراء پر جو کام کیا ہے وہ اتنا مستحکم ہے کہ ذہن و دل میں بے اختیار ان کے لئے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
خلیل صاحب ادب کے بہترین ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شاعر بھی ہیں جن کے اسلوب سے جدید نظم اور جدید غزل کو اپنی ابتدائی منزل میسر آگئی۔ خلیل صاحب پرانی تشبیہوں اور استعاروں سے گریز کرتے ہوئے وہ شعر تخلیق کرتے تھے جس میں ایک مخصوص طرز کی سائیکی کے افراد اور زمانے، کائنات اور وقت کی متصادم کائناتیں، ذہن اور ذات کا افسانہ تحیر سے بھرپور فضا بناتے ہوئے لہجے میں نمایاں ہو۔ ’’نیا عہد نامہ‘‘ میں شامل ایک غزل ہے:
کوئی تم جیسا تھا، ایسا ہی کوئی چہرا تھا
یاد آتا ہے کہ اک خواب کبھی دیکھا تھا
رات جب دیر تلک چاند نہیں نکلا تھا
میری ہی طرح سے سایہ بھی مرا تنہا تھا
ان اشعار میں فراق کے طرز کی حسیت بھی ہے اور ناصر کاظمی کے شعر کی تحریر ناکی بھی۔ وہ خاموشی جو شاعر کے شعور میں خوابیدہ کیفیات کو ایک بے آواز طوفان میں بدل دیتی ہے۔ خلیل صاحب بنیادی طور پر خاموشی کی کائنات میں طوفان برپا کردینے والے فن کار تھے، ان کا لہجہ غزل کے نئے امکانات کا پتہ دینے والا ایسا طرز تھا، جو بعد میں نئے غزل کا اسلوب بن گیا۔ نیا عہد نامہ ہی میں خلیل صاحب کی ایک منفرد غزل ہے۔
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر! ذرا پکار مجھے
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن! مری دہلیز پر اتار مجھے
خلیل صاحب نے یہ غزل ۱۹۶۱ میں کہی تھی، شاعری میں تہذیبی حوالہ کا تذکرہ اب شروع ہوا ہے۔ خلیل صاحب نے اس غزل میں ذات، تہذیب اور تہذیبی تشخص کا مفہوم کو جس طرح اس غزل میں پیش کیا ہے اسے ہم جدید فکر کا اہم ترین نقطہ قرار دے سکتے ہیں۔ تخلیق کے لیے ذات کا حوالہ اور اپنی تہذیبی دہلیز کی بنیاد اس لئے ضروری ہے تاکہ شعر کا حوالہ مفہوم اور مفہوم مکمل طور پر ظاہر ہوسکے اور مختلف پڑھنے والوں کی سطح پر قرآت کے ذریعہ کوئی نیا مفہوم بھی دریافت کیا جاسکے۔ خلیل صاحب نے اس تخلیقی طرز کو نمایاں کیا تھا فن میں تمام جدید اور جدید تریاما بعد جدید امکانات، چھٹی دہائی میں ہی موجود تھے۔ ایک اور عہد ساز غزل کے ذریعہ خلیل صاحب نے اس تخلیقی طرز کو نمایاں کیا تھا۔
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
مذکورہ غزل کی اشاعت سے جدید غزل کے معاشرے میں ایک ہل چل سی پیدا ہوگئی تھی۔ اور کہا جانے لگا تھا کہ صاف شفاف اور سادہ لہجہ میں جدید عہد کے مزاج کو بیان کردینے کی یہ صفت خلیل صاحب کا ایک اور عطیہ ہے جس پر ہمارے عہد کی غزل ناز کرسکتی ہے۔
’’نیا عہد نامہ‘‘ کی غزلیں اور نظمیں خلیل صاحب کی ذات کے افسانے کا وہ حصہ اور عرصہ ہیں جب تخلیقی ذہن کسی قدر عافیت اور اعتماد کی منزلوں میں ہوتا ہے۔ خلیل صاحب نے ترقی پسندی کے آخری دور میں جس شخصی بوہمین ازم کو دیکھا تھا، اس کی صورت حال بدل چکی تھی۔ ادب اور تخلیق کو لاشعوری عمل سمجھتے ہوئے بھی غورو فکر اور سنجیدہ افکار و خیالات سے وابستہ تصور کیا جارہا تھا۔
خلیل صاحب کی ذاتی زندگی میں بھی بہت سی تبدیلیاں آگئیں تھیں، شادی گھر اور بچے، اقتصادی اعتماد، مسرتوں کی نئی کائنات اور غور فکر کی نئی منزلیں اسی باعث نیا عہد نامہ کی تخلیقات میں زندگی سے ایک مثبت اور مستحکم رشتہ کا تاثر نمایاں ہوتا ہے۔ خلیل صاحب کو یہ اعتماد اور مسرت بھی تھی کہ ادب کا منظر نامہ بدل چکا ہے اور جو ادبی فضا قائم ہوئی ہے اس میں تخلیق کی تکریم بھی ہے، اور فنکار کی یہ جستجو بھی کہ اپنے ادب کو پرانی بنیادوں سے مختلف ایک نئے عہد، نئے مزاج اور طرز فکر کی سطح پر ہموار کیا جائے۔ اس دور میں جو نئے ادبی سوالات اور مکالمات قائم ہوئے جو نئے ناقد سامنے آئے اور ادبی رسائل نے جس طرح ایک نئی فضا قائم کی اس سے خلیل صاحب کچھ مطمئن بھی ہوئے اور نئی فضا کی ہم نوائی بھی کی۔ اس عرصہ میں نئے ادیب اور شاعر نئے ناقد اور مفکرین اکثر علی گڑھ جاتے تھے اور خلیل صاحب سے مکالمہ ہوتا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی اور میں خود اکثر خلیل صاحب سے ملتے تھے۔ اور نئے مباحث پر بات چیت ہوتی تھی۔ ایک تبدیلی یہ بھی آئی تھی کہ علی گڑھ کے بزرگ ناقد اور ادیب بھی جدید ادب کے ہم نوا ہوگئے تھے، اس تبدیلی میں یقینی طور پر خلیل صاحب کو بڑا دخل تھا پرانے مخالفین کا اب اصرار یہ تھا کہ ہم بھی تبدیل ہوچکے ہیں، ہمیں بھی جدید ادب میں شامل کیا جانا چاہیے۔
ضمنی نوعیت کے اعتماد اور سکون کے یہ لمحات، خلیل صاحب اور دوسرے بیدار ذہین ادیبوں کے لیے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے۔ جدید ادب میں بھی ایک غول بیابانی داخل ہوگیا، مزاج مکدر ہونے لگا اور کچھ نئے سوالات قائم ہونے شروع ہوگئے، خلیل صاحب چونکہ زیادہ حساس تھے، اس لئے ان پر نئے سوالات کا زیادہ ہی اثر ہوا۔ ان کی تخلیقات میں بھی کائنات گیر سوالات کے ساتھ ساتھ ادبی صورت حال پر بھی تشویش کے اظہارات کا سلسلہ شروع ہوا اس نئے مزاج کی تخلیقات ’’زندگی اے زندگی‘‘ میں شامل ہیں۔ کچھ مثالیں ادبی تشویش سے متعلق ؎
کیا قیامت ہے کہ ہم خود ہی کہیں خود ہی سنیں
ایک سے ایک ابوجہل ہے کس کس سے لڑیں
یاں تو سب لوگ ہیں دستارِ فضلیت باندھے
کوئی ہم سا جو ہو محفل میں تو ہم بھی بیٹھیں
٭…٭…٭
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریزپا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہمسایۂ خدا نکلا
٭…٭…٭
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بد دماغ یہاں بھی پچھڑ گیا
بدلتی ہوئی ادبی صورت حال اور ’’غول بیاباں‘‘ کے بے ہنگم شور پر خلیل صاحب کا یہ ردعمل کچھ مضامین میں بھی نمایاں ہوا، تاہم یہ ان کی تہذیبی شخصیت کا ردعمل تھا۔ تخلیقی سطح پر خلیل صاحب کی فکر میں بعض اہم فلسفیانہ موضوعات شامل ہوگئے اور خلیل صاحب کا فن ان دانش وروں کے افکار وخیالات سے ہم آہنگ ہوگیا جو بیسویں صدی اور آنے والے زمانے میں انسانی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے تھے۔ خلیل صاحب نے اپنے فن کی سطح پر انسان اور کائنات کے تازہ کار سوالات کو محسوس کیا اور ذات وکائنات کے تصادم کی نئی تضاداتی فضا پر تخلیقی انداز سے سوچنا شروع کیا اس احساس کی کچھ مثالیں:
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
یوں شہر تابہ شہر جو بکھرا ہوا ہوں میں
مجھ سے نہ پوچھو نام میرا روحِ کائنات
اب اور کچھ نہیں ہوں ترا آئینہ ہوں میں
٭…٭…٭
آئے ہیں اور گزرے ہیں کتنے ہی ماہ و سال
صدیوں سے راستے میں کھڑے ہیں کئی سوال
٭…٭…٭
کٹی پھٹی سی یہ روحیں گلے سڑے یہ بدن
بس اور کچھ نہیں اب ڈھونڈتے ہیں پیراہن
ہمارے عہد سے منسوب کیوں ہوئے آخر
کچھ ایسے خواب کہ جن کا نہیں ہے کوئی بدن
خود اپنے اپنے جہنم میں جل رہے ہیں سبھی
عجیب دور ہے یہ دور آتش و آہن
غزلوں کے علاوہ ’’زندگی اے زندگی‘‘ میں خلیل صاحب کی بہت سی نظمیں بھی ایسی ہیں جن میں جدید عہد کے وہ سلگتے ہوئے سوالات ہیں جن سے ہمارے عہد کی فکر اور دانش و لرزہ براندام ہیں۔ نظموں میں ’’ان کہی، نیا آدمی، میں گو تم نہیں ہوں، نغمے کی موت، اور کتبے کے عنوان سے شامل کئی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں ہمارے عہد کا Dilemma بھی ہے اور Self Consciousness بھی، Paradoxes بھی ہیں اور باطنی دنیا تک رسائی کی جستجو بھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندگی اے زندگی میں شامل تخلیقات کے لمحات تک پہنچتے ہوئے خلیل صاحب عہدِ نو کے ایسے بڑے فنکار بن گئے تھے جو زمینوں اور زمانوں کے اسرار کو جان کر انسان کو اس کا منصب پہچاننا سکھا دیتا ہے۔
خلیل صاحب کی وفات کے وقت ان کی عمر زیادہ نہیں تھی، لیکن کچھ برس تک خون کی ایک مہلک بیماری کی کلفتیں برداشت کرتے رہے۔ بیماری کے دور میں ہی انہوں نے ’’کتبے‘‘ اور بعض نظمیں اور غزلیں لکھیں۔ اس دور میں ان کی آواز میں کائنات کا تمام کرب سمٹ آیا تھا۔ اُس دور کا ایک مصرع یاد آرہا ہے۔
دور تک اب دور تک دیوار ودر کوئی نہیں
بصیرت اور بصارت کی یہ وسعت یہ لامتناہی سلسلہ، یہ احساس جس نے خلیل صاحب کو زماں مکاں کی وسعتوں سے ہمکنار کیا ان کے فن کا نقطۂ عروج تھا، جو ادب اور تخلیق کی تاریخ میں ہمیشہ قائم ودائم رہے گا اور خلیل صاحب ہمارے ذہن و دماغ اور تخلیقی ادب کی تاریخ کا ایک درخشاں باب بنے رہے گے۔
محمود ہاشمی
نئی دہلی
؟
کاغذی پیرہن
(۱۹۴۷…۱۹۵۵)
فہرست
کاغذی پیرہن
نظمیں
یاد
شام اودھ
برِہ کی ریکھا
جن راتوں میں نیند نہ آئے
لمحۂ جاوداں
آپ بیتی
کاغذی پیرہن
نیا جنم
گیتان جلی
کنج محبت
بہار کی واپسی
میرے خوابوں کی سرزمیں
آدمیوں کے میلے میں
غزلیں
ہر زرہ گلفشاں ہے نظر چور، چور ہے
اپنا ہی شکوہ، اپنا گلا ہے
مرے ساز غم پہ چھیڑوں نہ یہ نغمہ بہاراں
بہت فسردہ ہیں ان کو کھو کر جگر فگاروں سے کچھ نہ کہنا
لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں، شام کہیں
گلی گلی کی ٹھوکر کھائی کب سے خوار وپریشاںہیں
زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات
تمام یادیں مہک رہی ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
رُباعیات
یاد
اب بھی دروازہ روز کھلتا ہے
راستہ میرا تک رہا ہے کوئی
میرے گھر کے اُداس منظر پر
کوئی شے اب بھی مسکراتی ہے
میری ماں کے سفید آنچل کی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں روتی ہیں
فاصلہ اور کتنی تنہائی
آج کٹتی نہیں ہیں یہ راتیں
آسماں مجھ پہ طنز کرتا ہے
چاند تاروں میں ہوتی ہیں باتیں
اے وطن تیرے مرغ زاروں میں
میرے بچپن کے خواب رقصاں ہیں
مجھ سے چھٹ کر بھی وادیاں تیری
کیا اسی طرح سے غزلخواں ہیں
شام اودھ
میں سوچتا ہوں خلائوں میں کیسے رنگ بھروں
نہ وہ افق ہے، نہ وہ آسماں کی پہنائی
شفق کے پھول یہاں جیسے کچھ اُداس سے ہیں
ہوا میں اُڑتے تو ہیں اب بھی ریشمی آنچل
مگر یہ حسن کے جلوے بھی بدحواس سے ہیں
وہ سائے ڈھلنے لگے اور میری کانوں میں
کہیں سے گونج اٹھا پھر وہی ادھورا گیت
پرانی یادوں کی موہوم سی کسک لے کر
نئی بہار نئی صبح کے تصور میں
سنہری کرنوں نے چھیڑا ہے اک مدھر سنگیت
مگر نہ جانے مرے ساز کی اسی دھن پر
کہاں سے آکے اک افسردگی سی منڈلائی
وہ سائے مٹنے لگے اور پھر اُبھرنے لگی
نظر کے سامنے صدیوں کی کوئی پر چھائیں
سیاہ زخموں سے ٹپکیں لہو کی کچھ بوندیں
کسی خیال سے سہمی ہوئی ہیں زنجیریں
حیات آج پھر اک بار جیسے شرمائی
ہیں زہر خندلبوں پر لئے، یہ دیواریں
انہیں کی اوٹ میں شاید وہ اپنی دنیا ہے
جہاں اک اور افق ہے اک آسمان ہے اور
جہاں فضا میں تبسم ہے مہ جبینوں کا
جہاں ہے پیار مرے دیس کی زمینوں کا
جہاں ہوا میں وہ ملبوس سر سراتے ہیں
کہ جن کی لمس سے کلیوں میں جان آجائے
جہاں ستاروں کی ٹھنڈک میں چاند سوتا ہے
انہیں فصیلوں کے پیچھے تو اب بھی راتوں کو
انہیں دھند لکوں میں، ان گومتی کی موجوں میں
نہ جانے کتنے ہی نغمے جوان ہوتے ہیں
وہ پھیلتی چلی جاتی ہے جیسے تاریکی
وہ ڈوبتا چلا جاتا ہے کائنات کا دل
وہ ایک ہاتھ بڑھا جیسے چھیننا چاہے
کوئی اڑان مرے عشق کے تخیل کی
یہاں تو شام اودھ بھی اسیر ہے جیسے
نہ جانے کیا ہے کہ بے کیف سی فضائوں میں
ترا خیال بھی اب رنگ بھر نہیں سکتا
مری نگاہ میں ہیں اب بھی وہ ترے گیسو
مگر ابھی تو یہ منظر سنور نہیں سکتا
ڈسڑکٹ جیل لکھنؤ ۱۹۴۹ء
برہ کی ریکھا
جانے کب پورا ہو پیاری تجھ سے ملنے کا ارمان
آج بہت ہی ڈرلگتا ہے اپنی اسی تنہائی سے
شام کے ان ڈھلتے سایوں سے، غم کی اس پہنائی سے
سرد ہوائوں کی آہٹ سے درد کی اس شہنائی سے
تو جو نہ ہوگی تو آئیں گے کتنے انجانے مہمان
تیری یادوں سے اس گھر کو یوں تو سجا کے رکھوں گا
تیرے خیالوں کی خوشبو سے دل کو بسا کے رکھوں گا
تیرے پیار کو سارے جگ سے یوں تو بچا کے رکھوں گا
پھر بھی کانپ اٹھتا ہوں پیاری جیسے آئے گا طوفان
ڈر ہے کہیں وہ رات نہ آئے جب پاگل ہوجائوں میں
تجھ کو ڈھونڈنے نکلوں لیکن اور کہیں کھوجائوں میں
تھک کر اور کسی آنچل کے سائے میں سوجائوں میں
اپنے پیار کا ہوگا پیاری اس میں بہت اپمان
جن راتوں میں نیند نہ آئے
جن راتوں میں نیند نہ آئے
تیرا جاگنے والا آخر
کن باتوں سے جی بہلائے
کتنے اچھے لوگ تھے وہ بھی
ایسی جُدائی کی گھڑیوں میں
تارے گنتے رہتے تھے
جو اک جھوٹے وعدے پر بھی
جانے کیسے کُھلا رکھتے تھے
اپنے گھر کا دروازہ
صبح تلک آنے والے کی
راہیں دیکھا کرتے تھے
اپنے دل کی تنہائی کو
چند ادھورے سپنوں سے ہی
وہ آباد کئے رکھتے تھے
ان کے برہا کے گیتوں میں
جھلمل آنسو کے پردے میں
میٹھے پانی کا چشمہ بھی
دھیرے دھیرے بہتا تھا
ترے اک جانے پر لیکن
میرا یہ کیا حال ہوا ہے؟
اپنے آپ سے میں روٹھا ہوں
میرا دل خود مجھ سے خفا ہے
مرے کان بھی میری باتیں
مجھ سے آج نہیں سنتے ہیں
گھر میں اتنی تاریکی ہے
انکھیں ساتھ نہیں دیتی ہیں
سارے روزن، سارے دریچے
سب دروازے بند پڑے ہیں
لمحۂ جاوداں
آنے والے کی راہ تک تک کر
سوگئے زندگی کے ویرانے
ذوق عرفاں، نہ کوئی جذب دروں
فکر درماں نہ کوئی سوزِ مآل
اک گھنے بوجھ کے تلے دب کر
اب سسکتی ہے آرزوئے وصال
رات کے سرد سرد ہونٹوں سے
مرے ماضی کے سارے افسانے
آج بن کر لہو ٹپکتے ہیں
رہ گیا ڈوب کر دھندلکے میں
مسکراتا ہوا وہ چاند کا کھیت
پھر کوئی خامشی سے گھبرا کر
چھیڑنے جا رہا ہے غم کا ساز
اور میرا خمار نیم شبی
میری آوارگی کے یہ نغمے
موت کی سمت بڑھتے جاتے ہیں
شعلۂ عشق آج زخمی ہے
سرد ہیں آسماں کے انگارے
رکتی جاتی ہے دھڑکنیں دل کی
تھمتی جاتی ہے آج بادِ شمال
ختم ہوتی ہیں اب جنوں کی حدیں
آج اس رہگذر پہ آپہنچا
جس جگہ آکے دل ربائوں کی
یاد بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے
تھام لے آج اے شعورِ حیات
لڑکھڑاتے ہوئے سے قدموں کو
میرے سینے میں چیختی ہے ابھی
ایک موہوم جستجو میری
میرے ارماں کدے میں رہ رہ کر
جیسے اک لمحہ گنگناتا ہے
ایک لمحہ مری محبت کا
جب کہ تزئین زندگی کے لئے
میں نے اک اجنبی کو چاہا تھا
آج جی چاہتا ہے میں بڑھ کر
اُسی لمحے کو جاوداں کردوں
آخری رات
مت بجھا دل ناداں
سوگوار شمعوں کو
اب بھی غم کے ماروں کی
آدھی رات باقی ہے
خواب کی تہوں میں اب
چھپ گئے ہیں جا جا کر
زندگی کے سوداگر
ہے جہان بے پایاں
ایک قریۂ ویراں
اور میری یہ دھرتی
کروٹیں بدلتی ہے
جیسے درد کے مارے
کوئی کچھ نہ کہہ پائے
چونک چونک اٹھتی ہے
راستے کی خاموشی
موت جیسے کرتی ہو
زندگی سے سرگوشی
میں نے اشک بوئے تھے
جن فسردہ آنکھوں میں
ان سے خون رستا ہے
ان سے آگ بہتی ہے
میرے سامنے آکر
ناچ ناچ اٹھتی ہیں
میری اپنی تصویریں
کتنی بار جب میں نے
زندگی لٹائی ہے
آسمان ٹوٹا ہے
جان پر بن آئی ہے
شل ہوئے ہیں یہ شانے
تھک گئی ہیں آشائیں
لیکن آج بھی ہمدم!
یہ اُداس دروازے
شاہراہ کی جانب
جیسے تکتے رہتے ہیں
دیکھ ان دریچوں پر
کوئی بوند پھر ٹپکی
نیند کے درختوں کو
کوئی پھر ہلاتا ہے
اور جیسے رہ رہ کر
میرے کان بجتے ہیں
موت کے قدم کی چاپ
آکے لوٹ جاتی ہے
میری نا تمام الفت
آسرا دلاتی ہے
آج جاگ کر کاٹو
ساعت فسردہ کو
آج کوئی آئے گا
آج کوئی آئے گا
آپ بیتی
یوں تو مرنے کے لئے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لئے زہر پیا ہے میں نے
شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے
یاں تو اک عمر اسی طرح سے جلتے گزری
کونسی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر
اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری
کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں
کاش میں ایسی کہانی کو سنا بھی سکتا
طعنہ زن ہیں جو مرے حال پہ اربابِ نشاط
ان کو اک بار میں اے کاش رُلا بھی سکتا
میں کہ شاعر ہوں، میں پیغامبر فطرت ہوں
میری تخئیل میں ہے ایک جہان بیدار
دسترس میں مری نظارۂ گلہائے چمن
میرے ادراک میں ہیں کن فیکوں کے اسرار
میرے اشعار میں ہے قلب حزیں کی دھڑکن
میری نظموں میں مری روح کی دلدوز پکار
پھر بھی رہ رہ کے کھٹکتی ہے مرے دل میں یہ بات
کہ مرے پاس تو الفاظ کا اک پردہ ہے
صرف الفاظ سے تصویر نہیں بن سکتی
صرف احساس میں حالات کی تفسیر کہاں
صرف فریاد میں زخموں کی وہ زنجیر کہاں
ایسی زنجیر کہ اک ایک کڑی میں جس کی
کتنی کھوئی ہوئی خوشیوں کی مناظر پنہاں
کتنی بھولی ہوئی یادوں کے پُراسرار کھنڈر
کتنے اجڑے ہوئے، لوٹے ہوئے سنسان نگر
کتنے آتے ہوئے جاتے ہوئے چہروں کے نقوش
کتنے بنتے ہوئے مٹتے ہوئے لمحات کا راز
کتنی الجھی ہوئی راہوں کے نشیب اور فراز
(۲)
کیا کہوں مجھ کو کہاں لائی مری عمر رواں
آنکھ کھولی تو ہر اک سمت اندھیرے کا سماں
رینگتی اور اونگھتی مغموم سی اک راہگذر
گردِ آلام میں کھویا ہوا منزل کا نشاں
گیسوئے شام سے لپٹی ہوئی غم کی زنجیر
سینہ شب سے نکلتی ہوئی فریاد وفغاں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہوائوں میں وہ غربت کی تھکن
درودیوار پہ تاریک سے سائے لرزاں
کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیں
ٹمٹماتے سے رئے چار طرف نوحہ کناں
مضمحل چہرے مصائب کی گراں باری سے
دلِ مجروح سے اٹھتا ہوا غمناک دھواں
یہی تاریکیٔ غم تو مرا گہوارہ ہے
میں اسی کوکھ میں تھا نور سحر کے مانند
ہر طرف سوگ میں ڈوبا ہوا میرا ماحول
میرا اجڑا ہوا گھر میرؔ کے گھر کے مانند
اک طرف عظمتِ اسلاف کا ماتھے پہ غرور
اور اک سمت وہ افلاس کے پھیلے ہوئے جال
بھوک کی آگ میں جھلسے ہوئے سارے ارماں
قرض کے بوجھ سے جینے کی امنگیں پامال
وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے کچھ پیار کے گیت
مہر و اخلاص زمانے کی جفائوں سے نڈھال
بھائی بھائی کی محبت میں نرالے سے شکوک
نگیہ غیر میں جس طرح انوکھے سے سوال
’’ایک ہنگامے پہ موقف تھی گھر کی رونق‘‘
مفلسی ساتھ لئے آئی تھی اک جنگ وجدال
فاقہ مستی میں بکھرتے ہوئے سارے رشتے
تنگدستی کے سبب ساری فضائیں بے حال
اک جہنم کی طرح تھا یہ مرا گہوارہ
اس جہنم میں مرے باپ نے دم توڑ دیا
ٹوٹ کر رہ گئے بچپن کے سہانے سپنے
مجھ سے منھ پھیر لیا جیسے مری شوخی نے
میرے ہنستے ہوئے چہرے پہ اُداسی چھائی
جیسے اک رات بھیانک مرے سر پر آئی
راہیں دشوار مگر راہ نما کوئی نہ تھا
سامنے وسعتِ افلاک خدا کوئی نہ تھا
میرے اجداد کی میراث یہ ویران سا گھر
جس کو گھیرے ہوئے ہر سمت تباہی کے بھنور
جس کی چھت گرتی ہوئی ٹوٹا ہوا دروازہ
ہر طرف جیسے بکھرتا ہوا اک شیرازہ
نہ کہیں اطلس و کمخواب، نہ دیبا و حریر
ہر طرف منہ کو بسورے ہوئے جیسے تقدیر
مجھ کو اس گھر سے محبت تو بھلا کیا ہوتی
ہاں اگر دل میں نہ جینے کی تمنا ہوتی
یہ مجھے کہہ کے یہی ہے مری قسمت کا لکھا
اس کی دیوار کے سائے سے میں لپٹا رہتا
لیکن اس دل کی خلش نے مجھے بیدار کیا
بے کسی رختِ سفر بن کے مرے ساتھ چلی
یاد آئی تھی مجھے گائوں کی ایک ایک گلی
لہلہاتی ہوئی فصلیں، وہ مرے آم کے باغ
وہ مکانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ
دور تک پانی میں پھیلے ہوئے وہ دھان کے کھیت
اور تالاب کنارے وہ چمکتی ہوئی ریت
مرے ہم عمر، وہ ساتھی، وہ مرے ہمجولی
میرے اسکول کے وہ دوست، مری وہ ٹولی
ایک بار ان کی نگاہوں نے مجھے دیکھا تھا
جیسے اک بار مرے دل نے بھی کچھ سوچا تھا
’’میں نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو‘‘
کاغذی پیرہن
کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے موسم بدل رہا ہے
اُٹھوں اور اب اُٹھ کے کیوں نہ اس گھر کے سارے دروازے کھول ہی دوں
مرے دریچوں پہ جانے کب سے دبیز پر دے لٹک رہے ہیں
میں کیوں نہ ان کو الگ ہی کردوں
مرا یہ تاریک وسرد کمرہ
بہت دنوں سے سنہری دھوپ اور نئی ہوا کو ترس رہا ہے
جگہ جگہ جیسے اس کی دیوار کی سپیدی اکھڑ گئی ہے
ہر ایک کونے میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں
مرے عزیزوں، مرے رفیقوں کی یادگاریں
یہ ساری تصویریں جیسے دھندلی سی پڑگئی ہیں
یہ شلیف، جس میں مری کتابیں ہیں
میز، جس پر مرے سبھی کاغذات بکھرے ہوئے پڑے ہیں
یہ سب کے سب گرد سے اٹے ہیں
مری کتابیں،
میں کیا بتائوں کہ کس قدر ہیں عزیز مجھ کو
بہت سی ایسی ہیں جو مرے دوستوں نے تحفے میں مجھ کو دی ہیں
وہ دوست جو جاں نثار تھے میرے، کس قدر چاہتے تھے مجھ کو
میں ان کے ہاتھوں کی پیاری تحریر ان کتابوں پہ دیکھتا ہوں
کچھ ایسے الفاظ، ایسے فقرے
جو ان کے ہاتھوں نے صرف میرے لئے لکھے ہیں
یہ میرے غم خوار، میرے دکھ درد کے امیں ہیں
مرے یہ سب کاغذات جو منتشر پڑے ہیں
مجھے یہ محسوس ہورہا ہے میں اُن سے بیزار ہو چلا ہوں
اگرچہ یہ جانتا ہوں ان کے سوا ہے کیا کائنات میری
مری تصانیف، میرے مضمون، میری نظموں کی ساری پونجی
وہ شے کہ جس کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ جو میرے کام آئی
میری کتابیں، میری بیاضیں، مسودے میری فکر و فن کے
نہ جانے کتنے ہی ناشروں کے حسین فائل میں کچھ دنوں رہ کے
پھر دوبارہ اس اجڑے کمرے میں آکے آباد ہوگئے ہیں
میں جس زمانے میں ان کتابوں کو لکھ رہا تھا
عجب جنوں تھا
عجیب طوفان میرے دل میں اُمنڈ رہا تھا
نہ نیند آتی تھی رات کو اور نہ دن کو دم بھر سکون ملتا
کہ جیسے خود زندگی نے ہاتھوں کو میرے لوح وقلم دیا ہو
انہیں کتابوں میں
میرے دل کی تمام دھڑکن
مری تمنا
مرے ارادوں کی ساری گرمی
میں آج ان کاغذات کو اُلٹ کر جو دیکھتا ہوں
تو اپنے ہی دل سے پوچھتا ہوں
یہ میری لکھی ہوئی کتابیں ہیں؟
ایسے اشعار؟
ایسی نظمیں؟
کہ جن پہ خود مجھ کو رشک آئے
یہ سب مرے ذہن کا کرشمہ ہیں؟ (ہائے کیا ہیں!)
میں ان کو پہچانتا نہیں ہوں
یہ ساری تصویریں میری ایسی ہیں آج جو مجھ سے مختلف ہیں
نیا جنم
ابھی اک سال گزرا ہے، یہی موسم، یہی دن تھے
مگر میں اپنے کمرے میں بہت افسردہ بیٹھا تھا
نہ کوئی سانولے محبوب کی یادوں کا افسانہ
نہ ایوانِ زمستاں کی طرف جانے کی کچھ خواہش
کسی نے حال پوچھا تو بہت ہی بے نیازی سے
کہا ’’جی ہاں خدا کا شکر ہے، میں خیرت سے ہوں
کوئی یہ پوچھتا کیوں آج کل کوئی غزل لکھی؟
نہ جانے بات کیا ہے ان دنوں کچھ ایسا لگتا ہے
تمہاری ہر غزل میں میرؔ کا انداز ملتا ہے
ہر اک مصرعے سے جیسے دھیمی دھیمی آنچ اُٹھتی ہے
تمہارے شعر پڑھ کر جانے کیوں محسوس ہوتا ہے
کہ کوئی ساز پر مدھم سروں میں گنگناتا ہے
مگر اک بات پوچھوں تم خفا تو ہو نہ جائو گے؟
یہ آخر کیا سبب ہے آج کل نظمیں نہیں لکھتے
تمہاری آپ بیتی بھی ابھی تک نامکمل ہے
اسے تو ناقدانِ فن نے سنتے ہیں سراہا ہے‘‘
میں سب سنتا تھا لیکن دل ہی دل میں سوچتا رہتا
مرے احباب کیا جانیں کہ مجھ پر کیا گزرتی ہے
مرے افکار پر یہ کیسی ویرانی سی چھائی ہے
بہت کچھ سوچتا ہوں پھر بھی کوئی بس نہیں چلتا
مگر اس بے بسی میں بھی مرے دل کی یہ حالت تھی
کبھی جب کوئی اچھی چیز پڑھنے کے لئے ملتی
تو پہروں روح پر اک وجد کی سی کیفیت ہوتی
رگوں میں میری جیسے خوں کی گردش تیز ہوجاتی
لہو کا ایک اک قطرہ یہ کہتا میں تو زندہ ہوں
مری پامالیوں میں پل رہی ہے اک توانائی
یہی عالم رہا تو جانے پھر کس روز اٹھ بیٹھوں
بسنت آیا تو یوں آیا کہ میں بھی جیسے اٹھ بیٹھا
سویرا ہوتے ہی ہر سمت سے جھونکے ہوائوں کے
نئی خوشبو لئے مجھ کو جگانے کے لئے آئے
جدھر بھی آنکھ اٹھاتا ہوں شفق کی مسکراہٹ ہے
نہ جانے کیسے کیسے پھول اب مجھ کو بلاتے ہیں
نہ جانے کتنے کتنے رنگ سے دل کو لبھاتے ہیں
فضا میں دور تک پھیلے ہوئے وہ کھیت سرسوں کے
یہ کہتے ہیں کہ اب ارماں نکالو اپنے برسوں کے
تمہارے سامنے پھیلا ہوا میدان سارا ہے
تمہارے چاہنے والوں نے پھر تم کو پکارا ہے
کوئی آواز دیتا ہے کہ آئو تم ہمارے ہو
مری دھرتی کے بیٹے، میری دنیا کے دُلارے ہو
تمہارے اشک نے جو بیج بوئے ہیں وہ میرے ہیں
اسی وادی میں پھر سے لوٹ کر اب تم کو آنا ہے
تمہاری ہی یہ بستی ہے، تمہیں کو پھر بسانا ہے
اب اس بستی میں رکھتے ہی قدم کچھ ایسا لگتا ہے
کہ اس کا ذرہ ذرہ پتہ پتہ کچھ نیا سا ہے
ہر اک رستے پہ جیسے کچھ نئے چہرے سے ملتے ہیں
یہی جی چاہتا ہے جو ملے اب اس سے یہ پوچھیں
تمہارا نام کیا ہے، تم کہاں کے رہنے والے ہو
کچھ ایسا جان پڑتا ہے کہ پہلے بھی ملے ہیں ہم
رہے ہیں ساتھ یا ایک دوسرے کو جانتے ہیں ہم
اگر تم ساتھ میرے تو شاید دوست تھے میرے
مجھے یاد آیا دونوں ساتھ ہی کالج میں پڑھتے تھے
وہ سارے دوستوں کا جمع ہونا میرے کمرے میں
وہ گپ شپ، قہقہے، وہ اپنے اپنے عشق کے قصے
وہ میری روڈ کی باتیں، وہ چرچے خوبریوں کے
کبھی آوارہ گردی اپنی ان ویران سڑکوں کی
کبھی باتوں میں راتیں کاٹتا سنسان جازوں کی
کبھی وہ چاندنی میں اپنا یونہی گھومتے رہنا
کبھی وہ چائے کی میزوں پہ گھنٹوں بیٹھنا سب کا
وہ باتیں عالم وحکمت کی، کبھی شکوہ شکایت کی
تمہیں تو یاد ہوگا ان میں ہی اک دوست شاعر تھا
ذرا دیکھو تو مجھ کو غور سے شاید وہ میں ہی تھا
بہت دن میں ملے ہیں ہم تو آئو آج جی بھر کر
ہنسیں بولیں، کہیں آوارہ گردی کے لئے نکلیں
چلیں اور چل کے سارے دوستوں کو پھر بلا لائیں
سجائیں آج پھر محفل کہیں پینے پلانے کی
میں تم کو آج اپنی کچھ نئی باتیں بتائوں گا
میں تم کو آج اپنی کچھ نئی نظمیں سنائوں گا
گیتا نجلی
جب بھی گیت سنتا ہوں
شام کی ہوائوں کے
کتنے پیارے لگتے ہیں
یہ درخت، یہ پودے
جیسے میری گردن میں
ڈال کر کوئی باہیں
میری ڈال کی سب باتیں
مجھ سے پوچھنا چاہے
تم کو کونسا غم ہے؟
کیوں اُداس رہتے ہو؟
تم پہ جو گزرتی ہے
کہہ سکو تو کہہ ڈالو
مجھ سے چاہتے ہیں کچھ
یہ ہرے ہرے پتّے
یہ رفیق تنہائی
یہ چمن کے گل بوٹے
کاش کوئی دن آئے
اپنے سارے پھولوں کو
اپنی بے زبانی کا
رازداں بنا ڈالو
وہ کہانیاں جن سے
رات رات بھر میں نے
اپنی نیند اڑائی ہے
ان کو بھی سنا ڈالوں
اور سارے گیتوں میں
میرا درد بھر جائے
اور سارے پتوں پر
میرا عکس اُتر آئے
کنج محبت
یہ سنسان راتیں، یہ ٹھنڈی ہوائیں، یہ پھیلی ہوئی تیری یادوں کی خوشبو
یہ چپ چپ سے پیڑ، یہ غم کے سائے، یہ دل کی کسک، یہ محبت کا جادو
یہ سب جاگتے ہیں، یہ سب سوچتے ہیں، یہ سب کروٹیں لے کے ہیں آہ بھرتے
نئی منزلوں سے، نئے راستوں سے، نئے موڑ سے سب کے سب ہیں گزرتے
ہر اک موڑ پر جیسے کوئی کھڑا ہو، اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ رہا ہو
سمجھ میں نہ آئے کوئی بات اس کی مگر جیسے چشمہ سا اک بہہ رہا ہو
کوئی جیسے بیٹھے مدھر گیت کے بول مدھم سروں میں یونہی گنگنائے
کوئی جیسے طوفاںدبائے ہو دل میں، کسی سے مگر پھر کبھی کہہ نہ پائے
کچھ الفاظ ایسے جویوں دیکھنے میں پرانے سے ہیں اور کتنے ہی انساں
انہیں کے سہارے سے کہتے رہے ہیں دلوں کی مرادیں، جوانی کے ارماں
یہ ارمان، یہ آرزوئیں ہماری، یہ کچھ رسمساتے ہوئے پھول جیسے
جگائیں جنہیں آکے جھونکے ہوا کے، جنہیں گدا گدا جائیں آآ کے بھنورے
خزاں کی ہوائوں کے چلنے سے پہلے، ٹپکتے ہوئے پھول کے رس میں گویا
کوئی گیت سا بن لیا ہے بہاروں نے گاتے ہیں اب بھی جسے باغ و صحرا
جو کنج محبت میں پیڑوں کی چھنتی ہوئی چاندنی کی زباں سے ہے کہتا
کہو آج کی رات کیسی گذاری؟ کوئی آج کی رات ملنے بھی آیا؟
بہار کی واپسی
میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگذر پر
یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا
کہیں آج بھی کہہ نہ دے کچھ نہیں ہے
یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے
جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے
وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا
وہ باتیں جنہیں غیر سے کہہ نہ پائیں
اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پہ
آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں
کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں
کھلے تھے جسے محفل دوش کہئے
جو کچھ دیر پہلے ہی برہم ہوئی ہے
چراغوں سے اب تک دھواں اٹھ رہا ہے
دروبام پر اب بھی پھیلی ہوئی ہے
ہر اک سمت صہبائے احمر کی خوشبو
ہوا میں ابھی شور ہے ہا و ہو، کا
وہ اڑتے ہوئے کاگ کے قہقہوں سے
الجھتے ہوئے زمزمے بوتلوں کے
بناتے ہیں دیوار پر کتنے دھبے
ابھی ہنس رہے ہیں ابھی بولتے ہیں
مری داستانوں کے دل چسپ کردار
سنسان گلیوں کے رنگین قصے
یہ سب میرے پیچھے چلے آرہے ہیں
کوئی جیسے روٹھے ہوئے آدمی کو
منائے، بڑے پیار سے تھپتھپائے
دلائے کوئی یاد گزری ہوئی بات
ہاتھوں کو اس کے دبا کر کہے
دیکھنا دیکھنا کوئی انجان راہی ہے
یا لڑکھڑاتا ہوا کوئی پتہ
خزاں کے پروں پر اُڑا آرہا ہے
کوئی نامہ شوق لے آرہا ہے
ترے شہر سر و سمن کے گلوں نے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے تجھ کو لکھا ہے
چلے آئو اب عہدِ گل آگیا ہے
میرے خوابوں کی سرزمیں
کہاں کہاں لیکے پھر رہا ہوں میں اپنے خوابوں کی سرزمیں کو
نہ جانے کیوں اس کو مجھ سے الفت ہے، یہ مجھے چھوڑتی نہیں ہے
یہ میری چھاتی سی لپٹی رہتی ہے جیسے مائوں سے اُن کے بچے
میں ایک آوارہ گرد، ناکام، اپنی ہی تشنگی کا مارا
ہر ایک رستے پر پائوں کے آبلے خون روچکے ہیں
ہر ایک دریا کے پاس جا جا کے میں نے پھیلائے ہاتھ اپنے
یہ گڑ گڑا کر کہا کہ میرے گلو میں کانٹے چبھے ہوئے ہیں
خدارا کچھ رحم کھائو، ٹپکا دو بوند بھر میرے منھ میں پانی
بڑے بڑے جگمگاتے شہروں میں اونچی اونچی عمارتوں کے
قریب ہی بیٹھ کر گزاری ہیں جاگ کر ایسی کتنی راتیں
خدا نے اک ’’برف کے جہنم‘‘ میں جس کے بدلے میں مجھ کو ڈالا
کبھی کبھی بھیک مانگنے کو لئے ہوئے آنسوئوں کی جھولی
تکاکیا ہوں حریر واطلس کے دیوتائوں کی سمت جیسے
یہ گر مرا حال پوچھ لیں گے تو بخش دیں گے مجھے خدائی
پڑا رہا ہوں میں اپنے بستر پہ، ایک ٹوٹے سے جھونپڑے میں
مرا بدن جیسے کوہ آتش فشاں کے مانند پھوٹتا ہو
ہر ایک لمحے یہ نبض جیسے کہ آخری بار کی ہو دھڑکن
میں چاپ سنتا تھا ایسے قدموں کی جیسے سب قرضخواہ میرے
مرے سرہانے کھڑے ہوں، کہتے ہوں ’’سود در سود چڑھ رہا ہے‘‘
ہمیں تو کچھ اور کیا ہے لینا مگر تم اپنی ہی زندگی میں
نجات پا جائو تا کہ مرنے پہ آتما ہو سکھی تمہاری
مگر جب آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ میرے خوابوں کی کوئی دلہن
مجھے جگاتی ہے موت کی نیند سے، مجھے پیار کررہی ہے
یہ کہہ رہی ہے کہ چھوڑ کر مجھ کو کیا کہیں اور جارہے ہو
ابھی اجازت نہ دیں گے تم کو، تمہارے یہ رشتہ دار سارے
تمہارے یہ کھیت جن میں سونا بچھا ہے، فصلیں کھڑی ہوئی ہیں
ہر ایک خوشے میں بس رہی ہے حسیں، دلآویزو مست خوشبو
پکے ہوئے تازہ تازہ میوئوں سے ڈالی ڈالی لدی ہوئی ہے
تمام چڑیاں تمہارا ہی نام لیکے اک گیت گا رہی ہیں
ندی کے پانی میں اپنے چہروں کو دیکھتے ہیں تمہارے بچے
تمہارے مدھوبن میں شام کو بنسری پہ رادھا کی ساری سکھیاں
ملن کی آشا لئے ہوئے اپنے اپنے گھنگھر و سنبھالتی ہیں
ابھی نہ جائو تمہاری بستی میں لوگ ہنستے ہیں، بولتے ہیں!
ابھی نہ جائو تمہارے اس دیس پر کوئی بم نہیں گرا ہے
آدمیوں کے میلے میں
وہی شام رنگیں وہی شہر خوباں، وہی جگمگاتے ہوئے راستے ہیں
وہی روشنی ہے، وہی قمقمے ہیں، وہی شوروغل ہے، وہی چہچہے ہیں
اُسی طرح سے قافلے آرہے ہیں، اُسی طرح پر چھائیاں مل رہی ہیں
اُسی طرح ملتے ہیں شانوں سے شانے، اُسی طرح چھوتی ہیں باہوں کو باہیں
اسی طرح رُک رُک کے کچھ دیکھتی ہیں، ہر ایک موڑ پر ڈھونڈتی ہیں پناہیں
ہر ایک شخص کا جیسے اپنا ہی ساتھی، کوئی اپنا ہی آدمی کھو گیا ہو
ہر اک چہرے کو غور سے تک رہا ہو، ہر اک آنکھ سے جیسے کچھ پوچھتا ہو
کہیں بھیڑمیں تم نے دیکھا ہے اسکو؟ کوئی میری خاطر پریشان سا ہے؟
کسی کی زباں سے سنا نام میرا؟ کوئی مجھ کو بھی پوچھتا پھر رہا ہے؟
کوئی شکل ایسی بھی دیکھی ہے تم نے جو میرے لئے ہی یہاں کھو گئی ہو
جو یوں دیکھنے کو تو دیکھے سبھی کو مگر صرف مجھ کو ہی پہچانتی ہو
ز
گرچہ اسیرِ رنج و اَلم سر بسر ہوں میں
پھر بھی رموزِ غم سے ابھی بے خبر ہوں میں
پھر شوخیٔ نگاہ مجھے لے کے اُڑ گئی
سب مجھ کو ڈھونڈتے ہیں بتائو کدھر ہوں میں
جلوہ ترا، خیال ترا، آرزو تری
تُجھ سے جُدا ہوں پھر بھی ترا ہمسفر ہوں میں
روتا ہوں آپ، آپ ہی کرتا ہوں اُن کو یاد
اپنی رگِ حیات پہ خودنیشتر ہوں میں
بیٹھا ہوا ہوں دیدۂ و دل فرشِ راہ کئے
اے دوست مدّتوں سے سرِ رہگذر ہوں میں
ہر موجۂ ہوا سے ہے لرزاں مقامِ زیست
اے قیسؔ شتِ خاک سے کیا بیشتر ہوں میں
ز
ہر ذرّہ گلفشاں ہے، نظر چور، چور، ہے
نکلے ہیں میکدے سے تو چہرے پہ نور ہے
ہاں تو کہے تو جان کی پروا نہیں مجھے
یوں زندگی سے مجھ کو محبت ضرور ہے
اب اے ہوائے چرخ کہن تیری خیر ہو
اٹھنے کو اس زمین سے شور نشور ہے
اپنا جو بس چلے تو تجھے تجھ سے مانگ لیں
پر کیا کریں کہ عشق کی فطرت غیور ہے
نازک تھا آبگینۂ دل ٹوٹ ہی گیا
تْو اب نہ ہو ملول ترا کیا قصور ہے
عارض پہ تیرے میری محبت کی سُرخیال
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
ز
اپنا ہی شکوہ، اپنا گلا ہے
اہل وفا کو کیا ہوگیا ہے
ہم جیسے سرکش بھی رو دیئے ہیں
اب کے کچھ ایسا غم آپڑا ہے
دل کا چمن ہے مرجھا نہ جائے
یہ آنسوئوں سے سینچا گیا ہے
ہاں فصل گل میں رندوں کو ساقی
اپنا لہو بھی پینا پڑا ہے
یہ درد یوں بھی تھا جان لیوا
کچھ اور بھی اب کے بڑھتا چلا ہے
بس ایک وعدہ کم بخت وہ بھی
مر مر کے جینا سکھلا گیا ہے
جرم محبت مجھ تک ہی رہتا
ان کا بھی دامن الجھا ہوا ہے
اک عمر گزری ہے راہ تکتے
جینے کی شاید یہ بھی سزا ہے
دل سرد ہو کر ہی رہ نہ جائے
اب کے کچھ ایسی ٹھنڈی ہوا ہے
ز
مرے ساز غم پہ چھیڑو نہ یہ نغمۂ بہاراں
مجھے راس آگیا ہے یہ لباس سو گواراں
کہیں زخم بھرنہ جائے، کہیں تو نہ بھول جائے
یہی سوچ کر فسردہ ہیں ترے جگر فگاراں
ہمیں اب شراب دینا تو سمجھ سمجھ کے ساقی!
کہیں پھر نہ سر اٹھائے یہ ہجوم بادہ خواراں
مجھے قتل کر کے سیکھے ہیں وہ رسم درد مندی
ہیں بڑے ہی بھولے بھالے یہ مرے جفا شعاراں
تری رہ میں سر کٹا کر مجھے کچھ سکوں ملا ہے
کہ مرے جنوں سے ٹوٹا ہے غرورِ شہریاراں
ذرا ان کے واسطے بھی کبھی گیسوئوں کا سایہ
کہ ابھی بھٹک رہے ہیں ترے تیرہ روزگاراں
ابھی آسکو تو آئو، ابھی رات کچھ ہے باقی
ابھی جھلملا رہی ہے یوں ہی شمع رہگذاراں
مجھے کچھ ہوا نہیں ہے یونہی پھٹ گیا گریباں
مجھے دیکھ دیکھ سوچو نہ کچھ اور غمگساراں
ز
بہت فسردہ ہیں اُن کو کھو کر جگر فگاروں سے کچھ نہ کہنا
نہ جانے کیا ان کے دل پہ بیتے کی سوگواروں سے کچھ نہ کہنا
بہت ہی بھوکے بہت ہی مفلس بڑے ہی آوارہ گردہیں ہم
بڑے ہی سرکش ہیں جانے کیا کہہ دیں غم کے ماروں سے کچھ نہ کہنا
کبھی نہ بھولیں گی ایسی گھڑیاں یہ سخت تنہائیوں کے لمحے
گزارنی ہجر کی یہ راتیں مگر ستاروں سے کچھ نہ کہنا
جو تیری ساقی گری پہ اکتا کے میکدے سے نکل گئے ہیں
وہ اپنا حق چھین لیں گے اب ایسے میگساروں سے کچھ نہ کہنا
یہ دردِ غربت، یہ اشک پیہم، یہ اجنبی شہر کی ہوائیں
مگر جو وہ میرا حال پوچھیں تو میرے پیاروں سے کچھ نہ کہنا
(بمبئی۔ مارچ ۱۹۵۳ء)
ز
لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں، شام کہیں
دیکھئے اب ہمیں ملتا بھی ہے آرام کہیں
کہیں ایسا نہ ہو فتنہ کوئی برپا ہو جائے
اب کبھی بھول کے لیجے نہ مرا نام کہیں
ہم ستم خوردہ ہیں کچھ دور ہی ہٹ کر رہیئے
دیکھئے آپ پہ آجائے نہ الزام کہیں
جب پڑا غم تو بدلتی ہی نہیں یہ دنیا
جا کے اب بیٹھ رہی گردش ایام کہیں
میرے احباب کے اخلاص کا پردہ رہ جائے
مجھ کو پہلے ہی ڈبودے دل ناکام کہیں
کوہ و صحرا کی طرف چل تو پڑے ہیں وحشی
پھر انہیں روک نہ لیں تیرے درد بام کہیں
میکدہ چھوڑ کے ہم رند بہت پچھتائے
ہم پہ سجتا ہی نہیں جامۂ احرام کہیں
ز
گلی گلی کی ٹھوکر کھائی کب سے خوارو پریشاں ہیں
یاں اپنا ہی ہوش نہیں ہے کس کو چاہ کے ارماں ہیں
فرصت ہو تو آکر دیکھو ہم آوارہ گردوں کو
کتنے غبار ہیں اس دامن میں، کتنے دل میں طوفاں ہیں
سب ہی ان کا ادب کرتے ہیں، چاہنے والا کوئی نہیں
ٹوکا اک گستاخ کو لیکن اب وہ خود ہی پشیماں ہیں
سر جو جھکا اس شوخ کے آگے اور کہیں پھر جھک نہ سکا
مسلک مہرو وفا میں واعظ ہم کافر بھی مسلماں ہیں
کچھ تو مداوا کرنا ہوگا اس آشفتہ مزاجی کا
اے غم جاناں! اپنے پرائے سب ہی تجھ سے نالاں ہیں
وادی وصحرا چھوڑ کے جب سے تیرے شہر میں آن بسے
جنگل جنگل ڈھونڈتے پھرتے ہم کو سارے غزالاں ہیں
اہل زمانہ کو بس میری اک رُسوائی یاد آئی
ورنہ میری وفا کے جانے کتنے اور بھی عنواں ہیں
ہم نے اپنی اُور سے خوباں کب تم کو بدنام کیا
تم نے جو جو داغ دیئے ہیں وہ چھاتی پہ نمایاں ہیں
خیر سے اب کے اہل ستم کو دیوانوں سے کام پڑا
دیکھیں کتنی رنجیریں، دیکھیں کتنے زنداں ہیں
جو پامال خزاں ہیں اک دن خاک چمن سے اٹھیں گے
ان کا حشر نہ جانے کیا ہو جو مقتول بہاراں ہیں
ڈر نہ رہا کچھ موج بلا کا، رُخ بھی پھرا دنیا کی ہوا کا
رونا کیا ہے دُکھ ساگر کا، اس کے ہم پر احساں ہیں
اک اک بوند جلی ہے لہو کی تب جا کر یہ رات کٹی
تیرے لئے اے صبح طرب ہم کب سے چاک گریباں ہیں
میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں
اعظمیؔ صاحب! آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں
ز
زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات
ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقصِ حیات
آخری شمع ہوں میں، میرا لہو جلنے دو
اب مرے بعد ملے گا نہ اندھیروں کو ثبات
صبح سے پہلے ہی برپا نہ کرو خیمۂ گل
کتنے گْلچیں ابھی بیٹھے ہیں لگائے ہوئے گھات
ہم کہ میخانے کا میخانہ اٹھا کر پی جائیں
تجھ سے چھٹ کر نہ کٹی ہم سے مگر ایک بھی رات
ضبط غم کے تو کئی اور بھی موسم ہوں گے
رولیں جی بھر کے کہ اب آئے نہ آئے برسات
تشنگی محفل خوباں میں تو کیا خاک بجھی،
پھر بھی بیٹھا ہوں کہ شاید ہو یہیں آبِ حیات
اتنا باہر نہ قدم سرحد ادراک سے رکھ
تجھ کو ڈس لیں نہ کہیں تیرے جنوں کے لمحات
صبح کا ذب سے تو کیا چاک ہو ظلمت کی ردا
جگمگا اٹھیں گے اب خاک کے لاکھوں ذرات
ز
تمام یادیں مہک رہیں ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے
یہ سچ ہے کھائے ہیں میں نے دھوکے مگر نہ چاہت سے کوئی روکے
بجھے بجھے سے چراغ دل میں بھی ایک شعلہ چھپا ہوا ہے
کچھ اور رسوا کرو ابھی مجھ کو تا کوئی پردہ رہ نہ جائے
مجھے محبت نہیں جنوں ہے، جنوں کا کب حق ادا ہوا ہے
میں اور خود سر میں اور سرکش ہوا ہوں تلقین مصلحت سے
مجھے نہ اس طرح کوئی چھیڑے یہ دل بہت ہی دُکھا ہوا ہے
ملا جو اک لمحہئِ محبت، یہ پوچھ اس کی ہے کتنی قیمت
اب ایسے لمحوں کا تذکرہ کیا کبھی جو وہ بے وفا ہوا ہے
یہ درد ابھرا ہے عہدگل میں خدا کرے جلد رنگ لائے
نہ جانے کب سے سلگ رہا ہے، نہ جانے کب کا دبا ہوا ہے
وفا میں برباد ہو کے بھی آج زندہ رہنے کی سوچتے ہیں
نئے زمانے میں اہل دل کا بھی حوصلہ کچھ بڑھا ہوا ہے
ہر ایک لے میری اکھڑی اکھڑی سی دل کا ہر تار جیسے زخمی
یہ کونسی آگ جل رہی ہے، یہ میرے نغموں کو کیا ہوا ہے
رباعیات
ہر درد کو پہلو میں دبا رکھا ہے
ہر زخم کو سینے میں چھپا رکھا ہے
پھر بھی یہ کہا کرتے ہیں مجھ سے احباب
یہ آپ نے کیا حال بنا رکھا ہے
سمجھائو مجھے آ کے ملامت ہی کرو
اس شوخ کی کچھ آ کے شکایت ہی کرو
تنہائی سے بڑھ کر نہیں دنیا میں عذاب
اسے ناصحو اب آکے نصیحت ہی کرو
وحشت پہ مری کیوں ہے پریشاں یہ لوگ
برباد ہوں میں تو کیوں ہیں نالاں یہ لوگ
زخموں کو کریدتے ہیں بن کر ہمدرد
اے کاش نہ کرتے مجھ پہ احساں یہ لوگ
ہم تم پہ نئے نئے جو عاشق ہوتے
سو درد جدائی پہ بھی ہم خوش ہوتے
اب جی نہیں لگتا ہے پرانے غم میں
آجائو کہ تھک گئے ہیں روتے روتے
وہ مل نہ سکے تو ہوسِ جام کریں
اب سائے میں میکدے کے آرام کریں
وہ تھے تو ہمیں خوف تھا رسوائی کا
لوگوں سے کہو اب ہمیں بدنام کریں
نیا عہد نامہ
(۱۹۵۶…۱۹۶۵)
فہرست
نیا عہد نامہ
غزلیں
وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہوسکا
میرے شعروں سے بھی بڑھ کر تری صورت ہے حسیں
تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بہ کو گئی
شراب ڈھلتی ہے شیشیے میں پھول کھلتے ہیں
بہت دنوں میں نے کنج خلوت میں اپنی آواز ہی سنی ہے
ہر خارو خس سے وضع نبھاتے رہے ہیں ہم
سوئی ہے کلی دل کی اس کو بھی جگا جانا
کوئی تم جیسا تھا ایسا ہی کوئی چہرا تھا
اب کے آئی جو مری رہ میں تو پامال رہی
وہ حُسن جس کو دیکھ کے کچھ بھی کہا نہ جائے
ہے عجیب چیز مئے جنوں کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط
خود چلے آئو یہاں یا کہ صدا دوہم کو
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
وہ رنگِ رُخ، وہ آتش خوں کون لے گیا
ایک سی بے رنگ صبحیں، ایک سی بے کیف شام
ہم وہ ہیں باز نہ آئیں گے ابھی جینے سے
ترتیب دے رہا ہوں دیوانِ عاشقی کو
اے ناصحو نہ اور کوئی گفتگو کرو
تو بھی اب چھوڑ دے ساتھ اے غم دنیا میرا
کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی کہہ لو
بس کی پابندیٔ آئین وفا ہم سے ہوئی
اظہار حقیقت میں دل وجاں کا زیاں ہے
نظمیں
بن باس
خلوت کا چراغ
فاصلہ
بھردیں
آنچل کی چھائوں میں
سایۂ دیوار
اپنے بچے کے نام
دوسری ملاقات
شام
رفتگاں
سوداگر
تسلسل
نیا عہدنامہ
وجدان
سلسلے سوالوں کے
خوابوں سے ڈرلگتا ہے
قیدی
میں اور ’’میں‘‘
بدلتے موسم
تنہائی سے آگے
ذاتیات
ناجنس
ز
وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا
گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا
یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی
ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا
اُن گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سوجاتی ہیں
جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا
وہ مانوس سلو نے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں
جن کو دیکھ کے خاک کا ذرّہ ذرّہ آنکھیں ملتا تھا
کوئی پرانا ساتھی بھی شاید ہی ہمیں پہچان سکے
ورنہ اک دن شہر وفا میں اپنا سکہ چلتا تھا
شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا
مٹی میں جو بیج بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا
اب کے ایسی پت جھڑ آئی سوکھ گئی ہے ڈالی ڈالی
ایسے ڈھنگ سے کوئی پودا کب پوشاک بدلتا تھا
آج شب غم راس آئے تو اپنی بات بھی رہ جائے
اندھیارے کی کوکھ میں یوں تو پہلے سورج پلتا تھا
دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی
اپنی کہنے جب بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا
۱۹۵۶ء
ز
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کے تجھ سے کس منزل پہ ہم تنہا چلے آئے
ابھی تک یاد آتے ہیں کچھ ایسے اجنبی چہرے
جنہیں دیکھے کوئی تو دیکھ کر تکتا ہی رہ جائے
یہ سچ ہے ایک زہر غم ہی آیا اپنے حصے میں
مگر یہ زہر پی کر بھی نہ ہم جینے سے باز آئے
اسی کے واسطے مت پوچھ کیا قیمت ادا کی ہے
مگر ہے کون جو ٹوٹے ہوئے اس دل کو اپنائے
اسی امید پر زندہ ہے یہ ذوق سخن گوئی
کہ آنے والی دنیا شاید ان شعروں کو دہرائے
ادھورے ہی سہی یہ نقش پھر بھی چھوڑے جاتے ہیں
کہ اس تصویر میں شاید کوئی اپنا نشاں پائے
۱۹۵۶ء
ز
نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں
کچھ بہانے مرے جینے کے لئے اور بھی ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی مگر غم سے ہے بھرپور ہوا
کئی بادل مری آنکھوں سے پرے اور بھی ہیں
عشقِ رسوا ترے ہر داغ فروزاں کی قسم
میرے سینے میں کئی زخم ہرے اور بھی ہیں
زندگی آج تلک جیسے گزاری ہے نہ پوچھ
زندگی ہے تو ابھی کتنے مزے اور بھی ہیں
ہجر تو ہجر تھا اب دیکھئے کیا بیتے گی
اس کی قربت میں کئی درد نئے اور بھی ہیں
رات تو خیر کسی طرح سے کٹ جائے گی
رات کے بعد کئی کوس کڑے اور بھی ہیں
غم دوراں مرے بازوئے شکستہ سے نہ کھیل
مشغلے میری جوانی کے لئے اور بھی ہیں
وادیٔ غم میں مجھے دیر تک آواز نہ دے
وادیٔ غم کے سوا میرے پتے اور بھی ہیں
۱۹۵۶ء
ز
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہوسکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہوسکا
میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی
قیمت مرے جنوں کی مرا سر نہ ہوسکا
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہوسکا
تیرے نہ ہوسکے تو کسی کے نہ ہوسکے
یہ کاروبارِ شوق مکرر نہ ہوسکا
یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہوسکا
گزری جو شب تو بجھ گئے اپنے چراغ بھی
آئی سحر تو پھر کوئی رہبر نہ ہوسکا
۱۹۵۶ء
ز
میرے شعروں سے بھی بڑھ کر تری صورت ہے حسیں
کس طرح تجھ کو میں اپنائوں مری زہرہ جبیں
تو مجھے چاہے نہ چاہے یہ ترے بس میں تو ہے
اور میں تجھ کو نہ چاہوں یہ مرے بس میں نہیں
میرے چہرے پہ بہت کم ہے مرے دل کی جلن
کاش میں اور بھی ہوسکتا ملول و غمگیں
دور ہی سے کبھی جھنکار سنا دے اپنی
وہ اندھیرا ہے کہ اب میں ہی نہ کھو جائوں کہیں
جلد آجا کہ کہیں بیت نہ جائے موسم
جلد آجا کہ ابھی جاگ رہی ہے یہ زمیں
ایک بس اہل وفا کو ہی نہیں راس آتے
جانے کس طرح کے ہیں شہر وفا کے آئیں
زہر غم پی کے مرے ہونٹوں پہ جو رنگ بھی آئے
میری آواز مگر پھر بھی ہے اب تک شیریں
آج آئینہ جو دیکھا تو ہوا یہ محسوس
جانے یہ کون ہے؟ میں ایسا تھا؟ یہ میں تو نہیں!
۱۹۵۶ء
ز
تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کْو بہ کْو گئی
لے آج دردِ عشق کی بھی آبرو گئی
وہ رت جگے رہے نہ وہ نیندوں کے قافلے
وہ شامِ میکدہ وہ شب مشکبو گئی
دنیا عجب جگہ ہے کہیں جی بہل نہ جائے
تجھ سے بھی دور آج تری آرزو گئی
اے کاش میں نہ سازِ حقیقت کو چھیڑتا
وہ دلنواز اک خلش جستجو گئی
کتنی عجیب شے تھی مگر خواہش وصال
جو تیری ہو کے بھی نہ ترے روبرو گئی
روٹھی تو خوب روٹھی رہی ہم سے فصل گل
آئی تو پھر نچوڑ کے دل کا لہو گئی
سینہ لہولہان تھا ہر ہر کلی کا آج
باد صبا چمن سے بہت سر خرو گئی
۱۹۵۶ء
ز
شراب ڈھلتی ہے شیشے میں، پھول کھلتے ہیں
چلے بھی آئو کہ اب دونوں وقت ملتے ہیں
جو ہوسکے تو گلے مل کے رولے اے غمخوار
کہ آنسوئوں ہی سے دامن کے چاک سلتے ہیں
یہ اور بات کہانی سی کوئی بن جائے
حریم ناز کے پردے ہوا سے ہلتے ہیں
مرے لہو سے معطر ترے لبوں کے گلاب
تری وفا سے کنول میرے دل کے کھلتے ہیں
دھڑک رہا ہے مسرت سے کائنات کا دل
کبھی کے بچھڑے ہوئے دوست آج ملتے ہیں
۱۹۵۷ء
ز
بہت دنوں میں نے کنج خلوت میں اپنی آواز ہی سنی ہے
مگر مری! بانسری فضائوں سے آج کچھ اور کہہ رہی ہے
بس ایک شعلے کی سرکشی سے چراغ سینے کے جل اٹھے ہیں
کیا ہے دامن کو چاک میں نے تو آج ہر سمت روشنی ہے
نہ پوچھ مستوں کو زہر غم پی کے آج کتنا سرور آیا
نہ دو،مے انگبیں کے ساغر کہ اب مری پیاس بجھ چکی ہے
کسی نگہ کا سلام لیتے تو آج کیوں سو گوار ہوتے
وہ کچھ پری ورکہ جن کے چہروں کی ساری تحریر مٹ چلی ہے
چلو کہ اب غم کی وادیوں میں طلوع مہتاب کا سماں ہے
جہاں جہاں میرے اشک بر سے وہاں کی مٹی سنور گئی ہے
عدد کو کب حوصلہ تھا اتنا تری محبت کی مار سہتا
ہمیں نے کی ہے یہ پیش دستی، ہمیں نے کچھ چھیڑ چھاڑ کی ہے
لگے رہو بازوئوں سے میرے کہ یہ گھڑی پھر بھی ہے غنیمت
ہوا کے جھونکے یہ کہہ رہے ہیں کہ رات آدھی گزر چکی ہے
۱۹۵۷ء
ز
ہر خارو خس سے وضع نبھاتے رہے ہیں ہم
یوں زندگی کی آگ جلاتے رہے ہیں ہم
شیرینیوں کو زہر کے داموں میں بیچ کر
نغمے حیاتِ نو کے سناتے رہے ہیں ہم
اس کی تو داد دے گا ہمارا کوئی رقیب
جب سنگ اٹھا تو سر بھی اٹھاتے رہے ہیں ہم
تادل پہ زخم اور نہ کوئی نیا لگے
اپنوں سے اپنا حال چھپاتے رہے ہیں ہم
تیرے لئے ہی رات بھر اے مہر زرنگار
تاریکیوں کے ناز اٹھاتے رہے ہیں ہم
اب کوئی تازہ پھول کھلا خاک پائمال!
اپنا لہو زمیں کو پلاتے رہے ہیں ہم
۱۹۵۸ء
ز
سوئی ہے کلی دل کی اس کو بھی جگا جانا
اس راہ سے بھی ہو کر اے بادِ صبا جانا
ہم بھولتے جاتے ہیں اُس چہرہِ زیبا کو
اے خواب ذرا اس کی صورت تو دکھا جانا
جب موسم گل آئے اے نکہت آوارہ
آکر درِ زنداں کی زنجیر ہلا جانا
پھر ہاتھ چھڑاتی ہے مجھ سے مری تنہائی
پھر دل کے سنبھلنے کے انداز بتا جانا
کس ناز سے پالا ہے ہم نے غم ہجراں کو
اس غم کو ذرا آکر سینے سے لگا جانا
اوروں کے لئے یوں تو اک سنگ گراں ہم ہیں
ہاں تم جو کبھی چاہو مٹی میں ملا جانا
آنکھوں سے بھی اب دل کی روداد نہیں کہتے
اب ہم سے کوئی سیکھے ہر بھید چھپا جانا
اپنے ہی خرابے میں ہم عمر گزاریں گے
جب تم کو ملے فرصت یہ گھر بھی بسا جانا
۱۹۵۸ء
ز
کوئی تم جیسا تھا، ایسا ہی کوئی چہرا تھا
یاد آتا ہے کہ اک خواب کبھی دیکھا تھا
رات جب دیر تلک چاند نہیں نکلا تھا
میری ہی طرح سے سایہ بھی مرا تنہا تھا
جانے کیا سوچ کے تم نے مرا دل پھیر دیا
میرے پیارے اسی مٹی میں مرا سونا تھا
وہ بھی کمبخت زمانے کی ہوا لے کے گئی
میری آنکھوں میں مری مے کا جو اک قطرہ تھا
تو نہ جاگا مگر اے دل ترے دروازے پر
ایسا لگتا ہے کوئی پچھلے پہر آیا تھا
تیری دیوار کا سایہ نہ خفا ہو مجھ سے
راہ چلتے یو نہی کچھ دیر کو آبیٹھا تھا
اے شبِ غم مجھے خوابوں میں سہی دکھلا دے
میرا سورج تری وادی میں کہیں ڈوبا تھا
اک مری آنکھ ہی شبنم سے شرابور رہی
صبح کو ورنہ ہر اک پھول کا منھ سوکھا تھا
۱۹۵۹ء
ز
اب کے آئی جو مری رہ میں تو پامال رہی
گھات میں یوں تو بہت گردمہ وسال رہی
خاک ہو کر ہی رہے ہم درمیخانہ کی
سرخیٔ مے ہی سر نامۂ اعمال رہی
نہ ہوا یہ کہ تہِ دام کبھی سو رہتے
زندگی اپنی تو رسوائے پروبال رہی
قفسِ رنگ سے نکلی تو ٹھکانا نہ ملا
بوئے گل جب سے اُڑی اور بھی بے حال رہی
کاسۂ چشم کودے دوکوئی آنسو، کوئی خواب
ورنہ سمجھوں گا کہ دنیا مری کنگال رہی
یوں کبھی ہم کو نہ تھا دعویٔ شمشیر زنی
ہاں حریفوں سے مگر پرُسشِ احوال رہی
۱۹۵۹ء
ز
وہ حسن جس کو دیکھ کے کچھ بھی کہا نہ جائے
دل کی لگی اُسی سے کہے بن رہا نہ جائے
کیا جانے کب سے دل میں ہے اپنے بسا ہوا
ایسا نگر کہ جس میں کوئی راستا نہ جائے
دامن رفو کرو کہ بہت تیز ہے ہوا
دل کا چراغ پھر کوئی آکر بجھا نہ جائے
نازک بہت ہے رشتۂ دل تیز مت چلو
دیکھو تمہارے ہاتھ سے یہ سلسلا نہ جائے
ہے کوئی کھیل جان گنوانے کا حوصلہ
خیر اب جو آگیا ہے تو یہ مرحلا نہ جائے
اک وہ بھی ہیں کہ غیر کا بنتے ہیں جو کفن
اک ہم کہ اپنا چاک گریباں سیا نہ جائے
۱۹۶۰ء
ز
ہے عجیب چیز مئے جنوں، کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
مگر اب ملا کے تو دیکھ لوں ذرا ایک قطرہ آگہی
مری خامشی، مری بے حسی، یہی میرا رازِ فرسدگی
کبھی سوگیا ہوں تو جاگ اٹھی ہے یہ دل کی چوٹ دبی دبی
ہے یہ کیسی صحبت میکشاں کہ ہر ایک جام لہو، لہو
یہی دوستی ہے تو اے خدا مجھے راس آئے نہ دوستی
ہے ملول مجھ سے دعائے موت کہ ساتھ اس کا نہ دے سکا
مرے راستے میں جو آگئی یہی زندگی یہی زندگی
ذرا آکے سامنے بیٹھ جا، مری چشم تر کے قریب آ
مرے آئینے میں بھی دیکھ لے کبھی اپنی زلف کی برہمی
یہی ساتھ ساتھ مرے رہا، میں اسی کا پانہ سکا پتا
کبھی ہر قدم پہ مجھے ملا، یہی آدمی یہی آدمی
مرے ساتھ ساتھ چلے تھے سب مرا ساتھ کوئی نہ دے سکا
مرے ہم سفر، مرے ہم نظر، مری خودسری، مری سرکشی
مری سمت اور بھی ساقیا، وہ جو بوند بوند میں زہر تھا
جسے اور کئی نہ پی سکا وہ شراب میرے ہی منہ لگی
میں شہید ظلمت شب سہی مری خاک کو یہی جستجو
کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی
۱۹۶۰ء
ز
پینا نہیں، حرام، ہے زہر وفا کی شرط
آئو اٹھا دیں آج مئے جاں فزا کی شرط
شوریدگیٔ سر کے لئے سنگِ در کی قید
زنجیر غم کے واسطے زلفِ دوتا کی شرط
ہو دوپہر کی دھوپ تو پلکوں کے سائباں
راتیں گزارنی ہوں تو کالی بلا کی شرط
یہ کیا ضرور، ہو مژہ عشق خوں فشاں
کیوں دست ناز کے لئے رنگ حنا کی شرط
ہر دلفگار کے لئے کیوں چاک پیرہن
ہر دلنواز کے لئے بندِ قبا کی شرط
کیا فرض ہے کہ ہم بھی بنیں قیس عامری
راہِ جنوں میں کیوں ہو کسی نقش پاکی شرط
کیوں دل کے توڑنے کو کہیں رسم دلبری
کیوں ہو کسی سے وعدۂ صبر آزما کی شرط
کیوں ہو کسی کو کوچۂ قاتل کی جستجو
کیوں امتحاں کے واسطے تیغ جفا کی شرط
کیوں زندگی کو جبر مسلسل کا نام دیں
کیوں آرزوئے موت کو دست دعا کی شرط
کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم وسزا کا ذکر
کیوں ہر عمل کی فکر میں خوفِ خدا کی شرط
ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط
۱۹۶۱ء
ز
خود چلے آئو یہاں یا کہ صدادو ہم کو
ہم گنہگار تمہارے ہیں دعا دو ہم کو
کیا کریں ہم سے یہ ہوتی نہیں دنیاداری
ہم جو دنیا کے نہیں ہیں تو مٹادو ہم کو
ہم تمہارے ہیں، تمہارے ہی قریب آبیٹھے
ہوں جو گستاخ تو محفل سے اٹھادو ہم کو
دامن قیس سہی، دامن یوسف نہ سہی
اب تو یہ چاک ہے جو چاہے سزا دو ہم کو
اپنی ہی راکھ میں یہ آگ نہ کجُلا جائے
اب لگائی ہے تو آنچل کی ہوا دوہم کو
یہ بھی ہم بھول گئے نام ہمارا کیا تھا
پوچھ کر گردش دوراں سے بتادو ہم کو
یا ہمیں قید کرو مجس تنہائی میں
یا اُسی دشمنِ جانی سے ملادو ہم کو
جن کو آنکھوں سے لگایا تھا ہمیں چھوڑ گئے
انہیں چہروں، انہیں خوابوں کا پتا دو ہم کو
۱۹۶۱ء
ز
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر! ذرا پکار مجھے
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مری دہلیز پر اُتار مجھے
اُبلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبح زرنگار مجھے
کہے گا دل تو میں پتھر کے پائوں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آکے سنگ سار مجھے
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے
۱۹۶۱ء
ز
وہ رنگِ رْخ، وہ آتش خوں کون لے گیا
اے دل ترا وہ رقص جنوں کون لے گیا
زنجیر آنسوئوں کی کہاں ٹوٹ کر گری
وہ انتہائے غم کا سکوں کون لے گیا
دردِ نہاں کے چھین لئے کس نے آئینے
نوکِ مژہ سے قطرہ خوں کون لے گیا
جو مجھ سے بولتی تھیں وہ راتیں کہاں گئیں
جو جاگتا تھا سوز دروں کون لے گیا
کس موڑ پر بچھڑ گئے خوابوں کے قافلے
وہ منزل طرب کا فسوں کون لے گیا
جو شمع اتنی رات جلی کیوں وہ بجھ گئی
جو شوق ہو چلا تھا فزوں کون لے گیا
۱۹۶۱ء
ز
ایک سی بے رنگ صبحیں، ایک سی بے کیف شام
لے رہی ہے زندگی مجھ سے یہ کب کا انتقام
کون سی منزل میں ہوں اب کچھ بھی یاد آتا نہیں
اپنی تنہائی سے اکثر پوچھتا ہوں اپنا نام
اپنے سینے میں لئے پھرتے ہیں اک شمع خیال
جو پجاری ہیں ترے، ہے تیرگی اُن پر حرام
مے نہیں ہے آج تو زہر حوادث ہی سہی
شکر ہے خالی نہیں رہتا کبھی مستوں کا جام
عمر بھر مصروف ہیں مرنے کی تیاری میں لوگ
ایک دن کے جشن کا ہوتا ہے کتنا اہتمام
پرسشِ احوال کو آئے ہو گرمِ دل کے بعد
جائو بھی تم سے نہیں مجھ کو رہا اب کوئی کام
ہم نہیں قائل کسی مجنوں، کسی فرہاد کے
یہ نماز عشق ہے اس کا نہیں کوئی امام
تجھ کو ٹھوکر مار کر بیٹھے ہیں فرش خاک پر
کر غم دنیا ہم ایسے سرکشوں کا احترام
۱۹۶۲ء
ز
ہم وہ ہیں باز نہ آئیں گے ابھی جینے سے
اپنا احوال چھپاتے ہیں جو آئینے سے
لوگ کیا ڈھونڈھ رہے ہیں مری پیشانی پر
رنگ آتا ہے یہاں اپنا لہو پینے سے
ہاتھ جو مجھ سے چھڑاتی ہے وہی پرچھائیں
لگ کے سوجاتی ہے راتوں کو مرے سینے سے
کھڑکیاں جاگتی آنکھوں کی کھلی رہنے دو
دل میں مہتاب اترتا ہے اسی زینے سے
۱۹۶۲ء
ز
ترتیب دے رہا ہوں دیوانِ عاشقی کو
لکھ لکھ کے کاٹتا ہوں عنوانِ زندگی کو
تو ساتھ چلے سکے گی اے گردش زمانہ
اب اک نئے سفر پر جانا ہے آدمی کو
گمراہ ہو کے میں نے ڈھونڈی ہیں اپنی راہیں
ایماں دعائیں دیتا ہے میری کافری کو
گھر سے نکل پڑے ہیں اب کسی کی جستجو میں
پہچانتے نہیں ہیں ہم آج سے کسی کو
درپے رہا ہوں جن کے انبوہِ کم سواداں
وہ خوب جانتے ہیں آشوبِ آگہی کو
کیا دیکھ کر کرو گے یہ دامن دریدہ
ہے دیکھنا تو دیکھو دل کی شکستگی کو
برسوں پھرے ہیں ہم بھی مثل غزال وحشی
پہلو میں لے کے تیری خوشبوئے دلبری کو
کرتے ہیں یاد اب تک بیتی ہوئی بہاریں
آنکھوں سے چومتے ہیں ایک ایک پنکھڑی کو
کل بٹ رہا تھاان کی محفل میں آب حیواں
ہم لوٹ آئے لے کر ناموسِ تشنگی کو
ہے آج کون سا دن آنکھوں کو کیا ہوا ہے
آواز دے رہی ہیں ہر سمت روشنی کو
۱۹۶۳ء
ز
اے ناصحونہ اور کوئی گفتگو کرو
گر ہوسکے تو چاک گریباں رفو کرو
ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو
پھر جس طرح بھی چاہو کرو ہم پہ تبصرہ
پہلے ہماری طرح سے جینے کی خو کرو
پھر کوئی لے گیا ہے چراغوں کی روشنی
تاصبح آج اپنے جگر کو لہو کرو
وہ تو نہیں یہ اس کا ہی ہم شکل ہے کوئی
اب اس کی چل کے اور کہیں جستجو کرو
آج اس حسیں سے مل کے عجب کیفیت میں ہوں
کوئی رقیب ہو تو مرے روبرو کرو
۱۹۶۳ء
ز
تو بھی اب چھوڑ دے ساتھ اے غم دنیا میرا
میری بستی میں نہیں کوئی شناسا میرا
شب غم پار لگا دے یہ سفینا میرا
صبح ہوگی تو اتر جائے گا دریا میرا
مجھ کو معلوم نہیں نام ہے اب کیا میرا
ڈھونڈنے والے مجھے چھوڑ دے پیچھا میرا
میں نے دیکھی نہیں برسوں سے خود اپنی صورت
میرے آئینے سے روٹھا ہے سراپا میرا
تو بھی خوابوں میں ملی، میں بھی دھندلکوں میں تجھے
زندگی دیکھ کبھی غور سے چہرا میرا
گھر سے نکلا ہوں تو اب دور کہیں جانے دے
روک اے گردش ایام نہ رستا میرا
دو قدم دوڑ کے آواز جرس بیٹھ گئی
چل پڑا میں تو کہیں پائوں نہ ٹھہرا میرا
میرے دامن میں رہی خاک غریب الوطنی
رہ گیا دیکھ کے منہ دامنِ صحرا میرا
۱۹۶۴ء
ز
کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے
مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے
کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے
کہ آسماں کو ترے پائوں پر جھکا دیتے
یہ کہیئے لوح جبیں پر ہے داغ رسوائی
زمانے والے ہمیں خاک میں ملادیتے
ہوئی تھی ہم سے جو لغزش تو تھام لینا تھا
ہمارے ہاتھ تمہیں عمر بھر دعا دیتے
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
کوئی ہو لمحہ فرصت کہ بیٹھ کر ہم بھی
ذرا عروس تمنا کو آئینہ دیتے
ملا ہے جرم وفا پر عذاب مہجوری
ہم اپنے آپ کو اس سے کڑی سزا دیتے
زباں پہ کس لئے یہ حرفِ ناگوار آنا
ہمارے زخم ہمارا اگر پتا دیتے
ذرا سی دیر ٹھہرتی جو گردش ایام
اسے شباب گریزاں کا واسطا دیتے
۱۹۶۴ء
ز
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سوناہوں کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردش وقت!
ٹوٹا ہوا تیرا آئینا ہوں
یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
دراصل میں غم سے آشنا ہوں
صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں
دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں
کیوں آب حیات کو میں ترسوں
میں زہر حیات پی چکا ہوں
تقدیر جنوں پہ چپ رہا ہوں
تعبیر جنوں پہ رورہا ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
ز
دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی کہہ لو
چاہے وہ حرف لکھو چاہے زبانی کہہ لو
میں نے مرنے کی دعا مانگی وہ پوری نہ ہو
بس اسی کو مرے جینے کی نشانی کہہ لو
صر صر وقت اڑالے گئی روداد حیات
وہی اوراق جنہیں عہدِ جوانی کہہ لو
تم سے کہنے کی نہ تھی بات مگر کہہ بیٹھا
اب اسے میری طبیعت کی روانی کہہ لو
وہی اک قصہ زمانے کو مرا یاد آیا
وہی اک بات جسے آج پرانی کہہ لو
جب نہیں شاخِ چمن پر تو مرا نام ہی کیا
برگِ آوارہ کہو برگ خزانی کہہ لو
ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں
آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو
۱۹۶۵ء
ز
بس کہ پابندیٔ آئین وفا ہم سے ہوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی
زندگی تیرے لئے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
رات بھر چین سے سونے نہیں دیتی ہم کو
اتنی مایوس تری زلفِ رسا ہم سے ہوئی
سر اٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
بارہا دست ستم گر کو قلم ہم نے کیا
بارہا چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہوئی
ہم نے اتنے ہی سر راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ہم سے ہوئی
بار ہستی تو اٹھا اٹھ نہ سکا دست سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی
کچھ دنوں ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پاکر
کتنی شرمندہ مگر موج بلا ہم سے ہوئی
۱۹۶۵ء
ز
اظہار حقیقت میں دل و جاں کا زیاں ہے
یہ بھی نہ کہو اب کہ مرے منہ میں زباں ہے
دیکھ آئے ہیں ہم جا کے ہر اک کوچہ و بازار
بس اپنے ہی غم خانے میں تھوڑی سی اماں ہے
دنیا کو پڑی کیا ہے کہ ہر بات کو سمجھے
کہنے کو تو جو دل میں ہے چہرے سے عیاں ہے
تنہا کسی منزل سے گزرنے نہیں دیتی
سائے کی طرح ساتھ لگی عمر رواں ہے
کتنوں کی کمر جھک گئی اس دورِ خرد میں
دیوانہ مگر اب بھی اسی طرح جواں ہے
ہم ہیں کہ اٹھانے کو چلے پردہ افلاک
اور سینہ گیتی پہ وہی سنگ گراں ہے
میخانے سے باہر ہمیں جو چاہو سو کہہ لو
میخانے میں جو شخص بھی ہے پیر مغاں ہے
عرصہ ہوا آئی نہیں دل میں کوئی خواہش
کہتے ہیں بہت دیر سے خالی یہ مکاں ہے
۱۹۶۵ء
بن باس
میں کہ خود اپنی ہی آواز کے شعلوں کا اسیر
میں کہ خود اپنی ہی زنجیر کا زندانی ہوں
کون سمجھے گا جہاں میں مرے زخموں کا حساب
کس کو خوش آئے گا اس دہر میں روحوں کا عذاب
کون آکر مرے مٹنے کا تماشا دیکھے
کس کو فرصت کہ اجڑتی ہوئی دنیا دیکھے
کون بھڑکی ہوئی اس آگ کو اپنائے گا
جو بھی آئے گا مرے ساتھ ہی جل جائے گا
وہ گھڑی کون تھی جب مجھ کو ملاتھا بن باس
ایک جھونکا بھی ہوا کا نہ وطن سے آیا
نے کوئی نکہت گل اور نہ کوئی موجِ نسیم
پھر کئی ڈھونڈنے مجھ کو نہ چمن سے آیا
میں وہ اک لعل ہوں جو بک گیا بازاروں میں
پھر کوئی پوچھنے مجھ کو نہ یمن سے آیا
یاد کرتے ہوئے اک یوسف گم گشتہ کو
کچھ دنوں روئی تو ہوگی مرے گھر کی دیوار
کچھ دنوں گائوں کی گلیوں میں اُداسی ہوگی
کچھ دنوں کھل نہ سکے ہوں گے مرے ہار سنگھار
کچھ دنوں کے لئے سنسنان سا لگتا ہوگا
آم کے باغ میں بے چین پھری ہوگی بہار
میں نے ایک پیڑ پہ جو نام لکھا تھا اپنا
کچھ دنوں زخم کے مانند وہ تازہ ہوگا
میرے سب دوست اسے دیکھ کے کہتے ہوں گے
جانے کس دیسِ میں بے چارہ بھٹکتا ہوگا
عمر بھر کون کسے یاد کیا کرتا ہے
ایک اک کر کے مجھے سب نے بھلایا ہوگا
ہائے اُن کو بھی خبر کیا کہ وہ اک زخم نصیب
زندگی کے لئے نکلا تھا جو راہی بن کر
آج تک پا نہ سکا چشمۂ آبِ حیواں
اُس کو سورج بھی ملے ہیں تو سیاہی بن کر
گھر سے لایا تھا جو کچھ طبعِ رواں، ذہن رسا
ساتھ اُس کے رہے اسبابِ تباہی بن کر
میرا یہ جُرم کہ میں صاحبِ ادراک و شعور
میرا یہ عیب کہ اک شاعر و فنکار ہوں میں
مجھ کو یہ ضد ہے کہ میں سر نہ جھکائوں گا کبھی
مجھ کو اصرار کہ جینے کا سزا وار ہوں میں
مجھ کو یہ فخر کہ میں حق وصداقت کا امیں
مجھ کو یہ زعم خود آگاہ ہوں خود دار ہوں میں
ایک اک موڑ پہ آلام ومصائب کے پہاڑ
ایک اک گام پہ آفات سے ٹکرایا ہوں
ایک اک زہر کو ہنس ہنس کے پیا ہے میں نے
ایک ایک زخم کو چُن چُن کر اٹھا لایا ہوں
ایک اک لمحے کی زنجیر سے میں الجھا ہوں
ایک اک سانس پہ خود آپ سے شرمایا ہوں
یوں تو کہنے کی نہیں بات مگر کہتا ہوں
پیار کا نام کتابوں میں لکھا دیکھا ہے
جب کبھی ہاتھ بڑھایا ہے کسی کی جانب
فاصلہ اور بھی کچھ بڑھتا ہوا دیکھا ہے
بوند بھر دے نہ سکا کوئی محبت کی شراب
یوں تو میخانہ لٹا دیکھا ہے
۱۹۵۶ء
پیمان وفا
میرے گھر کی یہ دیواریں جیسے پی کر بیٹھی ہیں
میرے جلتے جلتے آنسوں میرے لہو کی برساتوں کو
میری تنہائی کی اندھیرے میں آ آ کر ہنستے ہیں
ننھے ننھے کتنے جگنو میری بھیگی پلکوں کے
بجھے دئے کی لو رہ رہ کر آدھی آدھی راتوں کو
اپنی گہری نیند سے جیسے چونک اٹھتی ہے بول اٹھتی ہے
آشائوں کے سندر مکھڑے پر لالی سی آجاتی ہے
مرجھائے سے نیل کنول کا اور بھی روپ نکھر آتا ہے
دھیرے دھیرے شیتل جل کی لہریں ساز اٹھاتی ہیں
گیتوں کی نرمل دھارا پر ڈول اٹھتی ہے جیون نیا
ہولے ہولے بہتی جائے بہتی جائے چلتی جائے
سمے کی ندی وہ ندی ہے جو ہر اک کو پار لگائے
ندی کے اس پار کھڑے ہیں میرے بچے میرے بالے
میرے کھیتوں کے سب موتی میرے خزانے کے رکھوالے
میری طرف سب ہاتھ اٹھا کر جیسے خوشی سے چلاتے ہیں
آئو آئو کتنی دیر سے راہ تمہاری دیکھ رہے ہیں
تم کو آج کے دن سورج کی کرنوں میں نہلائیں گے
آج ہم اپنی سالگرہ کا پہلا جشن منائیں گے
خلوت کا چراغ
وہ مرے پھول، وہ ہنستے ہوئے سارے چہرے
میرے غم خانے سے رخصت ہوئے اک اک کر کے
پھر وہی میں ہوں، وہی میری فسردہ راتیں
پھر وہی میں ہوں وہی میری پرانی باتیں
اُسی مانوس سی تصویر کوتکتے رہنا
سوچتے رہنا کہ کچھ اس سے کہوں یا نہ کہوں
کیسے کہہ دوں کہ مرے ہاتھ، یہ ترسے ہوئے ہاتھ
چاہتے ہیں کہ کوئی ہاتھ میں ان کو لے لے
زخم خوردہ ہیں کوئی ان کو سہارا دے دے
کیسے کہہ دوں کہ مرے ہونٹ، یہ جلتے ہوئے ہونٹ
کب سے پیاسے ہیں بہت پیاسے بہت پیاسے ہیں
کیسے کہہ دوں مجھے ہونٹوں سے پلادے کوئی
کیسے کہہ دوں مجھے جینے کی دعا دے کوئی
کیسے کہہ دوں کہ لگا لے کوئی سینے سے مجھے
کیسے کہہ دوں کہ کوئی مجھ سے مرا سب کچھ لے لے
کیسے کہہ دوں کہ مری شمع شبستانِ حیا!
آج کیا ہوگا بہت تیز ہوا چلتی ہے
رس میں ڈوبے ہوئے جھونکے مرے دروازوں سے
آکے ٹکراتے ہیں آ آ کے پلٹ جاتے ہیں
اپنا پیراہنِ غم ایک قفس ہے جیسے
راگ کی رنگ کی خوشبو کی ہوس ہے جیسے
دل دھڑکتا ہے مرا بات نہ جانے کیا ہو
آج اندھیری ہے بہت رات نہ جانے کیا ہو
آج کی رات کوئی اور بچالے مجھ کو
آج کی رات کوئی اور بچالے مجھ کو
فاصلہ
کیا ہوا مجھ کو کہ میں اپنے ہی گھر میں گم ہوں!
وہی دروازے، وہی شیشے، وہی آئینے
لیکن اس درجہ کی وحشت کبھی پہلے تو نہ تھی
اپنے چہرے کو ذرا ہاتھ سے چھو کر دیکھوں
جانے کیوں آج یہ کچھ مجھ کو نیا لگتا ہے
کیونکہ ایسی مری صورت کبھی پہلے تو نہ تھی
اک ذرا اور قریب آئو تمہیں پہچانوں
کیا تمہیں ہو؟ یہ وہی تم ہو؟ وہی ہیں خدوخال
وہی جس کے لئے چھپ چھپ کے عبادت کی تھی
جس کے دیکھے سے مرے دل کو قرار آتا تھا
جس کی چاہت ہی میں بیتے ہیں ابھی تک مہ و سال
یہ وہی شکل ہے جیسی کہ تمہاری تصویر
جو کہ اب بھی مری دیوار پہ آویزاں ہے
لیکن اس روپ میں کیا کوئی جھلک اور بھی ہے
کیونکہ اس سے تو کسی جسم کی آنچ آتی ہے
کیونکہ اس میں تو کسی روح کا غم عریاں ہے
۱۹۵۷ء
بھرویں
کچی نیند کے جھونکوں سے
اب مت کھیلو میری رانی!
بھور سے کتنی نئی ہوائیں
پائوں تمہارے چھوتی ہیں
آشائوں کی سندر سکھیاں
اپنے کنوارے ہاتھوں سے
شبنم سے بھیگی مٹی پر
نام تمہارا لکھتی ہیں
نیل گگن کی تھال پہ کوئی
پائوں میں اپنے گھنگرو باندھے
دھیرے دھیرے ناچ رہا ہے
دھرتی کروٹ سے لیتی ہے
کوئی نیا سر جاگ رہا ہے
مان سروور میں اٹھتے ہیں
میٹھے میٹھے ہلکورے سے
اپنی آنکھیں کھول رہے ہیں
پیارے پیارے پھول کنول کے
کسم کی پیالی سے رہ رہ کر
ادس کی مدرا چھلک رہی ہے
ہر کونپل انگڑائی لے کر
اپنی سیج پہ اٹھ بیٹھی ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا
ذرہ ذرہ جاگ رہا ہے
اٹھو اٹھو میری رانی!
میری رانی! جاگو جاگو
آج نیا سورج نکلے گا
آج نیا دن آئے گا
آنچل کی چھائوں میں
آج ہر سمت سے آنچل کی ہوا آتی ہے
کیا کہوں اب کے یہ کس طرح کا آیا موسم
لمحے لمحے کی زباں پر ہے نئی فصل کا گیت
میری بستی مرے کھیتوں کا عجب ہے عالم
ہنس رہے ہیں مرے معصوم سے ننھے پودے
جن کو ملتی رہی اب تک مرے غم کی شبنم
کوئی گوری لئے آئی ہے چھلکتی گاکر
جس طرح پہلے برستی تھیں یہ آنکھیں چھم چھم
رس بھرے ہونٹوں سے راتوں کے اندھیرے مہکے
اس اندھیرے میں کوئی چھیڑ دے جیسے سر گم
منزلیں اب مرے پائوں میں بچھی جاتی ہیں
جانے کس سمت لئے جاتا ہے ایک ایک قدم
مجھ سے کہتی ہے مری پیاس یہ جیون بھر کی
اور کچھ اور کہ یہ نشہ ابھی ہے کم کم
رکھ کے سینے پہ مرے ہاتھ کوئی کہتا ہے
اتنے پاگل نہ بنو ہوش میں آئو بالم!
دیکھو اب جاگ اٹھو رات کئی بھور ہوئی
سیج کے گجروں میں باقی نہ رہا کوئی نم
چل کے پھلواری میں سورج کو نکلتے دیکھیں
چل کے دیکھیں کہ کل کھلتی ہے کیسے تھم تھم
میرے بالوں میں سجا دو کوئی ہنستا ہوا پھول
چل کے ہاتھوں پہ مرے کھائو محبت کی قسم
۱۹۵۸ء
سایۂ دیوار
کیسا سنسان ہے دشتِ آوارگی
ہر طرف دھوپ ہے ہر طرف تشنگی
کیسی بے جان ہے میکدے کی فضا
جسم کی سنسنی، روح کی خستگی
اس دو راہے پہ کھوئے گئے حوصلے
اس اندھیرے میں گم ہوگئی زندگی
اے غمِ آرزو میں بہت تھک گیا
مجھ کو دے دے وہی میری اپنی گلی
چھوٹا موٹا مگر خوبصورت ساگھر
گھر کے آنگن میں خوشبو سی پھیلی ہوئی
منہ دھلاتی سویرے کی پہلی کرن
سائباں پر امربیل مہکی ہوئی
کھڑکیوں پر ہوائوں کی انکھیلیاں
روزنِ در سے چھنتی ہوئی روشنی
شام کو ہلکا ہلکا اٹھتا دھواں
پاس چولھے کے بیٹھی ہوئی لکشمی
اک انگیٹھی میں کوئلے دہکتے ہوئے
برتنوں کی سہانی مدھر راگنی
رس بھرے گیت معصوم سے قہقہے
رات کو چھت پہ چھٹکی ہوئی چاندنی
صبح کو اپنے اسکول جاتے ہوئے
میرے ننھے کے چہرے پہ ایک تازگی
رشتے ناطے، ملاقاتیں، مہمانیاں
دعوتیں جشن تیوہار شادی غمی
جی میں ہے اپنی آزادیاں بیچ کر
آج لے لوں یہ پابندیوں کی خوشی
۱۹۵۸ء
اپنے بچے کے نام
اے مرے سن و سال کے حاصل
میرے آنگن کے نودمیدہ گلاب
میرے معصوم خواب کے ہم شکل
میری مریم کے سایہ شاداب
صبح تخلیق کا سلام تجھے
زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب
اے مقدس زمیں کے شعلہ نو
تو فروزاں ہواں فضائوں میں
میرے سینے کی جو امانت ہیں
جو مری نارسا دعائوں میں
اس طرح مسکراتی ہیں جیسے
نغمگی دور کی صدائوں میں
مجھ کو اجداد سے وارثت میں
وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا
عمر بھر پائمال وخاک بسر
میرا حصہ رہا غم فردا
مجھ کو میرے لہو میں نہلا کر
جس نے قیدِ حیات میں رکھا
اے مری روح فن کے عکسِ جمیل
تجھ کو میری سی زندگی نہ ملے
جو نہ میں ہوسکا وہ تو ہو جائے
کاش تو میرا جانشیں نہ بنے
میں تصور میں بھی جہاں نہ گیا
ان دیاروں میں تیرا نام چلے
۱۹۵۹ء
دوسری ملاقات
کہہ نہیں سکتا کہاں سے آئے ہو تم کون ہو
ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت ہے پہچانی ہوئی
خاک میں روندا ہوا چہرہ مگر اک دلکشی
آنکھ میں ہلکا تبسم، دل میں کوئی ٹیس سی
پائوں سے لپٹی ہوئی بیتے ہوئے لمحوں کی گرد
پیرہن کے چاک میں گہرے غموں کی تازگی
پرسشِ غم پر بھی کہہ سکنانہ اپنے جی کا حال
کچھ کہا تو بس یہی کہ تم پہ کچھ بیتی نہیں
راہ میں چلتے ہوئے ٹھوکر لگی اور گر پڑے
یونہی کانٹے چبھ گئے ہیں پھٹ گئی ہے آستیں
یاد آتا ہے کہ تم مجھ سے ملے تھے پہلی بار
اک کہانی میں نہ جانے کس کی تھی لکھی ہوئی
اور میں نے اس طرح کے آدمی کو دیکھ کر
دل میں سوچا تھا کہ اس سے آج کرلو دوستی
۱۹۵۹ء
شام
خوبصورت شام کہتی ہے کہ آئو اب چلیں
چل کے ان رستوں پہ ڈھونڈیں اپنی کچھ پرچھائیاں
کل جہاں چھوڑا تھا ہم نے رنگ و بو کا کارواں
چل کے پہچانیں کہ ان میں اپنی قبریں کون ہیں
اس خرابے میں پڑے ہیں جا بجا مٹی کے ڈھیر
جن کی قسمت کو نہ راس آیا دنوں کا ہیر پھیر
کتنی شامیں میں نے رو رو کر گزاری ہیں یہاں
کرچکا ہوں بارہا آکر یہاں پر خودکشی
یہ زمیں میرا لہو پی کر بھی ویسی ہی رہی
پھر کہیں یہ شام بھی جائے نہ اپنی رائیگاں
آج چل کر اپنے قدموں سے یہ قبریں رونددیں
شاید اب کی فصل میں اک خاک سے پودے اُگیں
۱۹۵۹ء
رفتگاں
دروازے اُداس اور گم سم
دہلیز کو چپ سی لگ گئی ہے
کیوں دور سے ان کے قہقہوں کی
آتی نہیں آج کوئی آواز
اب کوئی نہ انگلیوں کی جھنکار
نہ قدموں کی کوئی راگنی ہے
کس حال میں ہیں یہ کون جانے
سب اپنے وہ ہم سبق وہ ساتھی
کہہ کر تو گئے پھر ملیں گے
کیا جانئے ان پہ کیسی بیتی
آوارہ ہے کون اب بھی پھرتا
راس آگئی کس کو گھر کر ہستی
آتے ہیں بہت سے آنے والے
کچھ اجنبی، کچھ رفیق و ہمدم
لیکن کئی سال مجھ پہ گزرے
سننے کے لئے ترس گیا ہوں
دستک کہ جواب بھی جانتی ہو
وہ نام جو میرا پیار کا ہے
۱۹۵۹ء
سوداگر
لو گجر بج گیا
صبح ہونے کو ہے
دن نکلتے ہی اب میں چلا جائوں گا
اجنبی شاہراہوں پہ پھر
کاسہ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا
دفتروں کارخانوں میں، تعلیم گاہوں میں جا کر
اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا
میری آرامِ جاں!
مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو
آج کی شام لوٹوں گا جب
بیچ کر اپنے شفاف دل کا لہو
اپنی جھولی میں چاندی کے ٹکڑے لئے
تم بھی مجھ کو نہ پہچان پائیں تو پھر
میں کہاں جائوں گا…؟
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا…
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا…
۱۹۵۹ء
تسلسل
پھر چمکیلی دھوپ آئے گی
فصل پکے گی
گیہوں کے متوالے پودے پھر مستی میں جھوم اٹھیں گے
رس آئے گا
پھر میرے کھیتوں کی ہوائیں خوشبوئوں میں جھولیں گی
گائوں کی سونی پگڈنڈی پر دھیرے دھیرے چلتا ہوں
شبنم کے موتی کی مالا
میرے قدموں سے ٹکرا کر
ٹوٹ رہی ہے
گھاس کی ہر ہر پتی
کس کے دھیان میں ڈوب گئی ہے
بیتے لمحوں کی آوازیں
پھر کانوں میں آتی ہیں
کل بھی یہی سورج نکلا تھا
صبح کی میٹھی نرم ہوا میں
ذرہ ذرہ پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا
شام ہوئی تو میرا اپنا سایہ مجھ سے روٹھ گیا تھا
میرے اپنے پائوں کے نیچے دفن ہوا تھا
۱۹۵۹ء
نیا عہد نامہ
برسوں سے یہ بام و در کہ جن پر
مہکی ہوئی صبح کے ہیں بوسے
یادوں کی یہی نگر کہ جن پر
سجتے ہیں یہ شام کے دھندلکے
یہ موڑ یہ رہگذر کہ جن پر
لگتے ہیں اداسیوں کے میلے
ہیں میرے عزیز، میرے ساتھی
کب سے مرا آسرا رہے ہیں
سنتے ہیں یہ میرے دل کی دھڑکن
جیسے یہ مجھے سکھارہے ہیں
ہنس بول کے عمر کاٹ دینا
میرے یہی دست و پا رہے ہیں
برسوں سے یہ میری زندگی ہیں
برسوں سے میں ان کو جانتا ہوں
ہیں میری وفا پہ یہ بھی نازاں
ہر بات میں ان کی مانتا ہوں
لیکن مرے دل کو کیا ہوا ہے
میں آج کچھ اور ٹھانتا ہوں
لگتا ہے یہ شہر دلبراں بھی
ہے پائوں کی میرے کوئی زنجیر
بس ایک ہی رات ایک دن ہے
ہر روز وہی پرانی تصویر
ہر صبح وہی پرانے چہرے
ہوجاتے ہیں شام کو جودلگیر
اب اور کہیں سے چل کے دیکھیں
کس طرح سحر کی نرم کلیاں
کرنوں کو سلام لے رہی ہیں
جاگ اٹھتی ہیں کس طرح سے گلیاں
سب کام پہ ایسے جارہے ہوں
جیسے کہ منائیں رنگ رلیاں
دیکھیں کہیں شام کو نکل کر
ڈھلتے ہوئے اجنبی سے سائے
یوں ہاتھ میں ہاتھ لے رہے ہوں
جیسے کہیں گھاس سرسرائے
اس طرح سے پائوں چل رہے ہوں
جیسے کوئی پی کے لڑکھڑائے
آنے ہی کو ہوں ملن کی گھڑیاں
سورج کہیں غم کا ڈوبتا ہو
مہکی ہو کہیں پہ شب کی دلہن
کچنار کہیں پہ کھل رہاہو
ہر گام پہ اک نیا ہو عالم
ہر موڑ پہ اک نیا خدا ہو
۱۹۶۰ء
وجدان
دھوپ معمول سے بھی سوا تیز ہے
کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں
کوئی سایہ نہیں
روشنی، چڑھتے سورج کی یہ روشنی
مجھ کو گھیرے ہوئے ہے
ایسا لگتا ہے جیسے بہت بھیڑ ہو
ہر طرف شوروغل ہر طرف قہقہے
میں کسی سے بھی کچھ کہنا چاہوں
تو شاید نہ اب کہہ سکوں
میں اسی روشنی میں
کھلی آنکھ سے راستے کی طرف اپنے تکتا ہوا
ساری آوازیں سنتا ہوا
ایک لمحہ کو خود اپنے ہی آپ سے
ہو کے رخصت وہاں جانکلتا ہوں
جس راستے میں کوئی قافلہ
نرم معصوم پھولوں کے ایک کنج میں
چھائوں میں خوبصورت درختوں کی
اس طرح بیٹھا ہوا ہے
جیسے اس قافلے کا ہر اک فرد
گم سم ہے چپ چاپ ہے
اور ہر شخص خود اپنی آواز سننے میں مصروف ہے
۱۹۶۰ء
سلسلے سوالوں کے
دن کے چہچہوں میں بھی رات کا ساسناٹا
رات کی خموشی میں جیسے دن کے ہنگامے
جاگتی ہوئی آنکھیں نیند کے دھندلکوں میں
خواب کے تصور میں اک عذابِ بیداری
روز و شب گزرتے ہیں قافلے خیالوں کے
صبح و شام کرتے ہیں آپ اپنی غمخواری
ہم کہاں ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ کون ہیں؟ مگر کیوں ہیں؟
ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے
چشمہِ ہدایت ہے علم کے صحیفوں میں
فن کے شاہکاروں میں اک چراغ عرفاں ہے
مرحمت کے ساماں ہیں ان کی بارگاہوں میں
مفت جو لٹاتے ہیں اب بھی اپنی دانائی
رزم گاہ ہستی میں اپنوں اور غیروں نے
جس سے روشنی پائی، جو عمل کی راہوں میں
کتنے کم نگاہوں کی مشکلوں میں کام آئی
ہم نے ان چراغوں کو ، ہم نے ان صدائوں کو
اپنی خواب گاہوں میں بارہا بلایا ہے
حال سب سنایا ہے اپنی آرزوئوں کا
اپنے دل کے زخموں کا بھید سب بتایا ہے
دو قدم مگر چل کر داغ کچھ نئے ابھرے
پھر خلائے بے پایاں پھر وہی اندھیرے تھے
ہر چراغ سے روٹھی جیسے اپنی بینائی
ہر صدا پہ غالب تھی جیسے اپنی تنہائی
۱۹۶۰ء
خوابوں سے ڈر لگتا ہے
کل کا سورج اسی دہلیز پہ دیکھے گا مجھے
کل بھی کشکول مرا شام کو بھر جائے گا
کل کی تخلیق بھی ہوگی یہی اک نان جویں
کل بھی ہر دن کی طرح یونہی گزر جائیگا
بھوک کی آگ جو بجھتی ہے تو نیند آتی ہے
نیند آتی ہے تو کچھ خواب دکھاتی ہے مجھے
خواب میں ملتے ہیں کچھ لوگ بچھڑ جاتے ہیں
ان کی یاد اور بھی رہ رہ کے ستاتی ہے مجھے
کل بھی ڈھونڈوں گا انہیں جا کے گلی کوچوں میں
کل بھی مل جائیں گے ان خوابوں کے پیکر کتنے
کل بھی یہ ہاتھ لگاتے ہی بدل جائیں گے
کل بھی پھینکیں گے مری سمت یہ پتھر کتنے
آج کی رات مجھے نیند نہیں آئے گی
آج کی رات مجھے خوابوں سے ڈر لگتا ہے
۱۹۶۱ء
قیدی
ایک بار اپنا بنا کر جو مجھے چھوڑ گئی
اُسی روٹھی ہوئی خوشبو کا پجاری ہوں میں
ہر گزرتی ہوئی آواز بلاتی ہے مجھے
لمحہ لمحہ مری پرسش کے لئے آتا ہے
صبح کی پہلی کرن پوچھتی ہے نام مرا
شام کا سایہ مجھے چھوکے چلا جاتا ہے
ہر دریچہ مجھے تکتا ہے بڑی حسرت سے
اور ہوا ڈھونڈھتی پھرتی ہے مرے غم کے چراغ
مجھ سے ہر رات یہ کہتی ہے مری سمت آئو
مجھ سے ہر چاندنے مانگے ہیں مری روح کے داغ
میں کسی کو نہ سنائوں گا کہانی اپنی
کچھ کہوں گا تو میں اس راہ میں کھو جائوں گا
اور جس روز یہ زنجیر مری ٹوٹ گئی
مجھ کو ڈر ہے میں کسی اور کا ہو جائوں گا
۱۹۶۱ء
میں اور ’’میں‘‘
نیند کی وادی میں لے آئی ہے دن بھر کی تھکن
بستر گل سے بھی بڑھ کر ہے ہر اک بستر خاک
رات کو لائو سبھی روشنیاں گل کردو
جسم بھی سوئے گا اور سوئیں گے ذہن و ادراک
رات تو آئی مگر روشنیاں گل نہ ہوئیں
میرے پہلو میں کوئی آگ سلگتی ہے ابھی
ہر بن مو سے صدا آتی ہے جائو جائو
ڈھونڈھ کر لائو وہ اک شے جو کہیں گم کردی
پابرہنہ میں یونہی گھر سے نکل آیا ہوں
سر کو ٹکراتا ہوں اور زور سے ہوں چلاتا
اے خدائو مرا سجدہ مجھے واپس کردو
ورنہ شیطان مرا مجھ کو نہ سونے دے گا
۱۹۶۳ء
بدلتے موسم
وہی پیارے مدھر الفاظ میٹھی رس بھری باتیں
وہی روشنی رو پہلے دن، وہی مہکی ہوئی راتیں
وہی میرا یہ کہنا تم بہت ہی خوبصورت ہو
تمہارے لب پہ یہ فقرہ کہ تم ہی میری قسمت ہو
وہی میرا پرانا گیت تم بن جی نہیں سکتا
میں ان ہونٹوں کی پی کراب کوئی مے پی نہیں سکتا
یہ سب کچھ ٹھیک ہے پر اس سے جی گھبرا بھی جاتا ہے
اگر موسم نہ بدلے آدمی اکتا بھی جاتا ہے
کبھی یونہی سہی میں اور کو اپنا بنا لیتا
تمہارے دل کو ٹھکراتا، تمہاری بد دعا لیتا
کبھی میں بھی یہ سنتا تم بڑے ہی بے مروت ہو
کبھی میں بھی یہ کہتا تم تو سرتاپا حماقت ہو
اب آئو یہ بھی کر دیکھیں تو جینے کا مزا آئے
کوئی کھڑکی کھلے اس گھر کی اور تازہ ہوا آئے
۱۹۶۳ء
تنہائی سے آگے
اور یہ سب بحثیں جو گھس پٹ کے پرانی ہوجائیں
جب کوئی رس نہ ہو دہرائی ہوئی باتوں میں
مضمحل روحیں خموشی کا سہارا ڈھونڈیں
جب کوئی لطف نہ رہ جائے ملاقاتوں میں
جب نہ محسوس ہوکچھ گر مئی آداب و سلام
جی نہ چاہے کہ کوئی پرسشِ احوال کرے
دور تک پھیلی ہوئی دھند ہو سناٹے ہوں
سب کے سب بیٹھے ہوں اور کوئی نہ ہو کچھ نہ رہے
ان خلائوں سے نکل کر کہیں پرواز کریں
آئو کچھ سیر کریں ذہن کی پہنائی میں
کیوں نہ دریافت کریں ایسی گزرگاہوں کو
بات کرتی ہیں مسافر سے جو تنہائی میں
جان پہچان کے کچھ لوگ وہاں نکلیں گے
کوئی ایسا کہ جسے دیکھ کے ہم یہ سوچیں
یہ خدوخال یہ چہرہ تو ہے مانوس بہت
نام اب یاد نہیں اس سے یہ کیسے پوچھیں
یا کبھی خافظہ دہرائے گا ایسا اک نام
دل کہے گا کہ یہ تھا اپنا ہی ملنے والا
اس کی صورت مگر اب ٹھیک سے کچھ یاد نہیں
سوچتے ہی رہیں وہ کیسا تھا، وہ کیسا تھا
۱۹۶۴ء
ذاتیات
جو مجھ پہ بیتی ہے
اس کی تفصیل میں کسی سے نہ کہہ سکوں گا
جو دکھ اٹھائے ہیں
جن گناہوں کا بوجھ سینے میں لے کے پھرتا ہوں
ان کو کہنے کا مجھ کو یارا نہیں ہے
میں دوسروں کی لکھی ہوئی کتابوں میں
داستاں اپنی ڈھونڈھتا ہوں
جہاں جہاں سرگذشت میری ہے
ایسی سطروں کو میں مناتا ہوں
روشنائی سے کاٹ دیتا ہوں
مجھ کو لگتا ہے لوگ ان کو اگر پڑھیں گے
تو راہ چلتے میں ٹوک کر مجھ سے جانے کیا پوچھنے لگیں گے
۱۹۶۵ء
ناجنس
باسی الفاظ ان کے باسی ہنسی
صورتیں مسخ آنکھیں پتھریلی
ہر بنِ موحسد کی آگ میں گرم
زہر بوتے تمام عمر کٹی
ہر گھڑی ہیں وہی گلے شکوے
سب کی کمزوریوں پہ خوب نظر
اپنے گھر پر دبیز سی چلمن
غیر کے گھر کی ایک ایک خبر
’’ذکر خیر‘‘ اس کا جو نہ ہو موجود
دوست دشمن کی اس میں کیا تفریق
جیسے سارے جہاں کا درد انہیں
ان سے شرمائیں نا صحانِ شفیق
جانے یہ کس طرح کی ہے مخلوق
آج تک جس سے اجنبیت ہے
یہ نہ آئیں تو ان سے خوف رہے
یہ جو آئیں تو ان سے وحشت ہے
پھر کسی نے وہ آکے دستک دی
لو کہ غارت ہوئی پھر آج کی شام
گھر کا دروازہ بند رہنے دو
آج لینے دو مجھ کو کچھ آرام
۱۹۵۹ء
زندگی اے زندگی
(۱۹۶۶…۱۹۷۸)
فہرست
زندگی اے زندگی
غزلیں
تھکے ماندوں کو جب بھی مل گیا رستہ محمدؐ کا
میں غلام مصطفیٰؐ ہوں، میں ہوں شیدائے رسولؐ
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
آئے ہیں اور گزرے ہیں کتنے ہی ماہ وسال
کئی پھٹی سی یہ روحیں، گلے سڑے سے بدن
سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
ہوا کے جھونکے جو آئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھائوں
کیوں شمع بجھ کے رہ گئی کیسی ہوا چلی
ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے
خودبخود دور کبھی دل کا اندھیرا نہ ہوا
کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بدلتا رہتا ہے کیا رنگ آسماں دیکھو
کیا قیامت ہے کہ ہم خود ہی کہیں، خود ہی سنیں
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
یہ تمنّا نہیں اب داد ہنر دے کوئی
چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی
کیوں میں بے حسں بن کے اوروں کی طرح
نظمیں
ان کہی
نیا آدمی
حروف والفاظ کے ذخیرے
میں گو تم نہیں ہوں
آئینہ در آئینہ
لمحے کی موت
غزلیں
دنیاداری تو کیا آتی، دامن سینا سیکھ لو
یہ مانا ہم نے یہ دنیا انوکھی ہے نرالی ہے
کیوں رو رو کر یہ نین گنوائیں،
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم
میں کہاں ہوں، کچھ تو بتادے زندگی اے زندگی
اک پل نہیں قرار کہ گردش بہت ہے یاں
اپنی بستی چھوڑ کر پردیس میں جائیں گے کیا
جی میں ہے معنی بے ا لفاظ کو کیوں کر باندھوں
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگئی
کہاں کی مئے کہاں کے جام ومینا
یہ تو میرا اپنا گھر ہے، تم اپنے گھر جائو میاں
شکستہ تر ہے جو اس خواب کے حصار میں ہوں
اگرچہ غیر کے ہاتھوں لہو لہان ہوا
رخ پر گرد ملال تھی کیا تھی
جلتا نہیں اور جل رہا ہوں
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑگیا
درمیاں خود اپنی ہستی ہو، تو ہم بھی کیا کریں
ہم تو گدائے گوشہ نشیں ہیں
طرز جینے کی سکھاتی ہے مجھے
سایہ ہوں کوئی کہ اب شفق ہوں
ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا
متفرق اشعار
کتبے
یادوں کی روشنی میں… ڈاکٹر اخلاق احمد
نعمت
تھکے ماندوں کو جب بھی مل گیا رستہ محمدؐ کا
رہاتا عمر اُن کے سر پہ پھر سایہ محمدؐ کا
نگہبانی کیا کرتی ہے اس کے نام کی برکت
سفر آساں ہے اس کا جو ہو دلدادہ محمدؐ کا
بلاتا ہے بڑی شفقت سے اپنے تشنہ کاموں کو
بہت شریں بہت شفاف ہے دریا محمدؐ کا
مجھے سرمست کردیتی ہے اپنی بوئے پیراہن
سجا رکھا ہے جب سے دل میں گلدستہ محمدؐ کا
بڑا خوش بخت ہے جس کو ملے اس در کا اک ذرہ
مبارک ہے جو دیکھے گنبدِ خضرا محمدؐ کا
نعمت
میں غلام مصطفیٰؐ ہوں، میں ہوں شیدائے رسولؐ
میری نظروں میں بسا ہے روئے زیبائے رسولؐ
میری جاں اس پر تصدق، اس کے نام پاک پر
ہر پل منھ سے نکلتی ہے صدا ہائے رسولؐ
آب رحمت لے کے آیا سارے عالم کے لیے
تشنہ لب جتنے بھی ہیں ان کا ہے دریائے رسولؐ
یہ وہ گلشن ہے مقدر میں نہیں جس کے خزاں
تاابد تازہ رہیں گے یوں ہی گلہائے رسولؐ
گونجتی ہے جب کبھی کانوں میں آواز اذاں
پھر نے لگتا ہے نگاہوں میں سراپائے رسولؐ
ز
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صداہوں میں
یوں شہر تابہ شہر جو بکھرا ہوا ہوں میں
میں ڈھونڈنے چلا ہوں جو خود اپنے آپ کو
تہمت یہ مجھ پہ ہے کہ بہت خود نما ہوں میں
مجھ سے نہ پوچھ نام مرا روحِ کائنات
اب اور کچھ نہیں ہوں ترا آئینہ ہوں میں
جب نیند آگئی ہو صدائے جرس کو بھی
میری خطا یہی ہے کہ کیوں جاگتا ہوں میں
لائوں کہاں سے ڈھونڈھ کے میں اپنا ہمنوا
خود اپنے ہر خیال سے ٹکرا چکا ہوں میں
اے عمر رفتہ میں تجھے پہچانتا نہیں
اب مجھ کو بھول جا کہ بہت بے وفاہوں میں
ز
آئے ہیں اور گزرے ہیں کتنے ہی ماہ وسال
صدیوں سے راستوں میں کھڑے ہیں کئی سوال
ہو کوئی ہم پیالہ تو وہ اس کی داد دے
راتوں کا زہرپی کے نہیں دن میں ہم نڈھال
کوئی تو بات ہوگی جو کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال
اس فکر میں کہ کل بھی نہ ہو آج کی طرح
ہم کرسکے نہ آج کے زخموں کا اندمال
یہ گردشِ زمیں ہے جولاتی ہے شام غم
ورنہ شعاعِ مہر تو ہوتی ہے لازوال
ہم ساملے کوئی تو کہیں اس سے حالِ دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
ز
کٹی پھٹی سی یہ روحیں گلے سڑے یہ بدن
بس اور کچھ نہیں اب ڈھونڈتے ہیں پیراہن
کہیں سے آتی ہے پھر آج بوئے آدم زاد
چلواسی کو بنالیں رفیق رنج و محن
ہمارے عہد سے منسوب کیوں ہوئے آخر
کچھ ایسے خواب کہ جن کا نہیں ہے کوئی بدن
خود اپنے اپنے جہنم میں جل رہے ہیں سبھی
عجیب دور ہے یہ دور آتش و آہن
جو پوچھنا ہے تو اب ان سے راستہ پوچھو
وہ لوگ جن کے دلوں پہ چراغ ہیں روشن
یہ اور بات ہمارے لہو کی پیاسی ہے
مگر زمین چمن پھر بھی ہے زمین چمن
ز
سوتے سوتے چونک پڑے ہم خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈ رہا ہو ایسا اک رستا دیکھا
دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرہ دیکھا
سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے سونا ہی سونا دیکھا
سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا
آج ہمیں خود اپنے اشکوں کی قیمت معلوم ہوئی
اپنی چتا میں اپنے آپ کو جب ہم نے جلتا دیکھا
چاندی کے سے جن کے بدن تھے سورج کے سے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نے ان کا بھی سایہ دیکھا
رات وہی پھر بات ہوئی ناہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سناٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا
ز
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
اک اک لمحہ اپنے ہاتھ سے جیسے نکلا جاتا ہے
دن ڈھلنے پر نس نس میں جب گردسی جمنے لگتی ہے
کوئی آکر میرے لہو میں پھر مجھ کو نہلاتا ہے
ساری ساری رات جلے ہیں جو اپنی تنہائی میں
اُن کی آگ سے صبح کا سورج اپنا دیا جلاتا ہے
میں تو گھر میں اپنے آپ سے باتیں کرنے بیٹھا تھا
ان دیکھا سا اک چہرہ دیوار پر ابھرا آتا ہے
کتنے سوال ہیں اب بھی ایسے جن کا کوئی جواب نہیں
پوچھنے والا پوچھ کے ان کو اپنا دل بہلاتا ہے
کس کو سزائے موت ملے گی؟ یہ کیسی ہے بھیڑ لگی
اور کیا اس نے جرم کیا تھا؟ کوئی نہیں بتلاتا ہے
۱۹۶۷ء
ز
ہوا کے جھونکے جو آئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
جو آگ خود ہی لگائی ہے اس میں جلتے رہو
یہ دل کا درد تو ساتھی تمام عمر کا ہے
خوشی کا ایک بھی لمحہ ملے تو اس سے ملو
ہمیشہ سچ ہی نہیں بولتا ہے آئینہ
خود اپنے آپ سے ہر لحظہ عمر مت پوچھو
یہاں تو کچھ بھی نہیں جز خلائے بے پایاں
ہماری آنکھوں کی گہرائیوں میں مت جھانکو
کھلا ہے اور نہ کھلے گا کسی کا دروازہ
تو آئو کوچہئِ جاناں کوشب بخیر کہو
۱۹۶۸ء
ز
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھائوں
یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھائوں
نام نہیں ہے کوئی کسی کا، روپ نہیں ہے کوئی
میں کس کا سایہ ہوں کس کے سائے سے ٹکرائوں
سستے داموں بیچ رہے ہیں اپنے آپ کو لوگ
میں کیا اپنا مول بتائوں کیا کہہ کر چلائوں
اپنے سپیدوسیہ کا مالک ایک طرح سے میں بھی ہوں
دن میں سمیٹوں اپنے آپ کو رات میں پھر بکھرائوں
اپنے ہوں یا غیر ہوں سب کے اندر سے ہے ایک سا حال
کس کس کے میں بھید چھپائوں کس کی ہنسی اڑائوں
پیاسی بستی، پیاسا جنگل پیاسی چڑیا پیاسا پیار
میں بھنکا آوارہ بادل کس کی پیاس بجھائوں
ز
کیوں شمع بُجھ کے رہ گئی کیسی ہوا چلی
’’اے اہلِ بزم کوئی تو، بولو خدا… لگی‘‘
دنیا سے دور بھاگ کے ہم میکدے گئے
اب کیوں ہمارے ساتھ ہے یہ بے حیالگی
وہ لوگ اب کہاں ہیں وہ چہرے کدھر گئے
اے شہر حسن! کس کی تجھے بدعا لگی
ہم کیوں نہ اپنے آپ پہ نازاں ہوں صاحبو!
ہم پر ہی کیوں یہ تہمت مہر و وفا لگی
سائے سے کچھ قریب سے ہو کر گزر گئے
پچھلے پہر کو آنکھ ابھی تھی ذرا لگی
آئینے میں یہ کون ہے ہم جانتے نہیں
صورت ذرا ذرا سی ہمیں آشنا لگی
کیا اب ادھر نہ آئیں گے خوشبو کے قافلے
تجھ کو خبر کہاں سے یہ بادِ صبا لگی
ہم جل کے خاک ہوگئے یہ اور بات ہے
کچھ ان کے دل میں آگ تھی ہم سے سوا لگی
کچھ دن ہوئے تھے زلفِ پریشاں کی قید میں
پھر اپنے ساتھ اور نہ کوئی بلا… لگی
ہم تشنہِ لب تو تیرے دعا گو ہیں پھر بتا
ہے کون جس کی تجھ کو نظر ساقیا لگی
بس اک حسینؓ کا نہیں ملتا کہیں سراغ
یوں ہر گلی یہاں کی ہمیں کربلا لگی
ز
ہر گھڑی عمر فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرامیری ہی صورت مانگے
دور رہ کر ہی جو آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں
دل دیوانہ مگر اُن کی ہی قربت مانگے
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اداسی کا سبب
خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
اپنے دامن میں چھپالے مرے اشکوں کے چراغ
اور کیا تجھ سے کوئی اے شب فرقت مانگے
وہ نگہ کہتی ہے بیٹھے رہو محفل میں ابھی
دل کی آشفتگی اٹھنے کی اجازت مانگے
زہرپی کر بھی جیوں میں یہ الگ بات مگر
زندگی اس لبِ رنگیں کی حلاوت مانگے
زیب دیتے نہیں یہ طرہ و دستار مجھے
میری شوریدہ سری سنگِ ملامت مانگے
۱۹۶۸ء
ز
خودبخود دور کبھی دل کا اندھیرا نہ ہوا
جب تک اس خاک سے پیدا کوئی شعلہ نہ ہوا
کیا کہیں ہم کہ ازل سے ہی ملی تھی ہم کو
ایسی تنہائی کہ تم سے بھی مداوا نہ ہوا
سرخرو اپنی نظر میں نہ ہوئے ہم جب تک
زیب تن، پیرہن آتشِ صبہا نہ ہوا
بس مرے پائوں سے لپٹی رہی آلام کی گرد
دل کا آئینہ کچھ ایسا تھا کہ دھندلا نہ ہوا
لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدا بن کے ملے
ہم وہ کافر ہیں کہ ہم سے کہیں سجدہ نہ ہوا
۱۹۶۹ء
ز
کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی
میں جب لمحے لمحے کا رس پی چکا
تو کچھ اور جاگی مری تشنگی
اگر گھر سے نکلوں تو پھر تیز دھوپ
مگر گھر میں ڈستی ہوئی تیرگی
غموں پہ تبسم کی ڈالی نقاب
تو ہونے لگی اور بے پردگی
مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا
بلاتی رہی نیند کی جل پری
جو تعمیر کی کنج تنہائی میں
وہ دیوار اپنے ہی سر پر گری
نہ جانے جَلے کون سی آگ میں
ہے کیوں سر پہ یہ راکھ بکھری ہوئی
ہوئی بارش سنگ اس شہر میں
ہمیں بھی ملا حقِ ہم سائیگی
گزاری ہے کتنوں نے اس طرح عمر
بل اقساط کرتے رہے خودکشی
کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں
مری دوڑتی بھاگتی زندگی
جنہیں ساتھ چلنا ہو چلتے رہیں
گھڑی وقت کی کس کی خاطر رکی
میں جیتا تو پائی کِسی سے نہ داد
میں ہارا تو گھر پر بڑی بھیڑ تھی
ہوا ہم پہ اب جن کا سایہ حرام
تھی ان بادلوں سے کبھی دوستی
مجھے یہ اندھیرے نگل جائیں گے
کہاں ہے تو اے میرے سورج مکھی
نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی
ز
بدلتا رہتا ہے کیا رنگ آسماں دیکھو
فصیلِ شہر سے باہر کا بھی سماں دیکھو
گزر کے آئے ہیں یہ لوگ کس جہنم سے
دلوں کی اور سے اٹھتا ہوا دھواں دیکھو
اسی کی ضد پہ پیا زہر خود شناسی کا
یہ زندگی ہمیں لے جائے گی کہاں دیکھو
رکیں گے جا کے مگر کون سے جزیرے پر
کھلا ہے اب تو خیالوں کا بادباں دیکھو
خوشی کا نام یہ کس طرح مسکراتے ہیں
یہ انتہائے غرور فسردگاں دیکھو
ز
کیا قیامت ہے کہ ہم خود ہی کہیں خود ہی سُنیں
ایک سے ایک ابوجہل ہے کِس کِس سے لڑیں
اور تو کوئی بتاتا نہیں اس شہر کا حال
اشتہارات ہی دیوار کے پڑھ کر دیکھیں
یاں تو سب لوگ ہیں دستارِ فضیلت باندھے
کوئی ہم ساجو ہو محفل میں تو ہم بھی بیٹھیں
جتنے ساتھی تھے وہ اس بھیڑ میں سب کھوئے گئے
اب تو سب ایک سے لگتے ہیں کسے ہم ڈھونڈیں
گھر کی ویرانی طلب کرتی ہے دن بھر کا حساب
ہم کو یہ فکر ذرا شام کو باہر نکلیں
خواب دیکھے نہیں خوابوں کی تمنا کی ہے
رات کس طرح سے کاٹی ہے یہ کیا عرض کریں
حاصلِ عمر بس اک کاسۂ خالی کیوں ہو
اور کچھ بس نہ چلے زہر سے اس کو بھر لیں
ہم سے کیوں پوچھتے ہیں وقت کی رفتار کا حال
آپ کیوں خود ہی نہ مسند سے اتر کر دیکھیں
دل پہ اک بوجھ سا رکھا ہے کسی طور ہٹے
ورقِ سادہ میسر ہو تو ہم بھی لکھیں
ز
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کِسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہمسایۂ خدا نکلا
ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ کے زہر
ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تابہ عدم اپنا نقش پانکلا
ز
یہ تمنا نہیں اب داد ہنر دے، کوئی
آکے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
ایک مدت سے ہے دل کاسۂ خالی کی طرح
کسی شیشے میں لہو ہووے تو بھر دے کوئی
ہر جگہ ساتھ رہے گی یہی دیوار کی قید
سَر اٹھانے کو ہمیں کون سا گھر دے کوئی
میر محفل کو گوارا نہیں یہ طرزِ کلام
شمع کشتہ کو جو عنوانِ سحر دے کوئی
صاحبِ فن کو بس اک غنچۂ تخلیق بہت
ورنہ بے سُود اگر عمر خضر دے کوئی
ز
چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی
یہ اور بات ہے کہ رہے ہیں اداس بھی
ان اجنبی لبوں پہ تبسم کی اک لکیر
لگتا ہے ایسی شے تھی کبھی اپنے پاس بھی
منسوب ہوں گی اور بھی اس سے حکایتیں
یہ زخم دل کہ آج ہے جو بے لباس بھی
پھیلا ہوا تھا صدیوں تلک اس کا سلسلہ
دریا کے ساتھ ساتھ بڑھی اپنی پیاس بھی
ناصرؔ کو رو رہا ہوں کہ تھا میرا ہم سخن
گو اس سے ہوسکا نہ کبھی روشناس بھی
۱۹۷۲ء
ز
کیوں میں بے حس بن کے اوروں کی طرح سے زندہ ہوں
کیا بتائوں میں خود اپنے آپ سے شرمندہ ہوں
قرض سب باقی پڑا ہے لمحہ موجود کا
کیوں سراپا انتظار لمحہ آئندہ ہوں
اب کوئی ایسا نہیں جس پر کروں سب کچھ نثار
اب تو برسوں سے خود اپنے سائے میں رقصندہ ہوں
رنگ چہروں کے، چراغ آنکھوں کے دھندلے پڑگئے
عکس کس کا دل میں ہے جس کے لئے نالندہ ہوں
میں نہیں ہوں صاحبانِ دست وبازو کا حریف
ایک زہر آگہی صد نعمت بخشندہ ہوں
۱۹۷۴ء
ان کہی
روز جب صبح کو
اپنے گھر سے نکلتا ہوا
راستے میں کوئی دوست مل جائے
یا جان پہچان والا
میں بڑی گرم جوشی سے اُس کی طرف
بڑھ کے جاتا ہوں
آداب کرتاہوں
اور مُسکراتا بھی ہوں
جیسے میں آج کے دن
بہت خوش ہوں
اور گھر پہ سب خیریت ہے
مجھ کو ہر ہر قدم پر
کئی طرح کے لوگ ملتے ہیں
جو انچی اونچی دکانوں پر بیٹھتے ہوتے ہیں
کئی ایسے افراد
میں جانتا ہوں وہ کتنے غنی ہیں
مگر کرسیوں پر ڈٹے ہیں
انہیں لوگ
جھک جھک کے تسلیم کرتے ہیں
وہ لوگ جو ان سے بہتر ہیں
تہذیب وشائستگی
دانش وآگہی میں
مگر اس کو کیا کیجئے
ان کی قسمت میں وہ خاص کرسی نہیں ہے
کہ جس پر کوئی مسخرا بیٹھ جائے
تو اس کو کوئی مسخرا کہہ نہ پائے
مجھ کو محسوس ہوتا ہے
خود میرے اندر
کوئی بیٹھا ہوا
کہہ رہا ہے
جی میں آتی ہے
ان مسخروں پر ہنسوں
کھو کھلے آدمی جو بھی ہیں
ان سے کہہ دوں کہ تم کھوکھلے ہو
اپنی کرسی پہ بیٹھا ہوا کوئی احمق
اونٹ کی طرح سے ببلائے
تو کہہ دوں…… کہ کیا بک رہے ہو؟
نیا آدمی
اور پھر یوں ہُوا
جو پرانی کتابیں، پُرانے صحیفے
بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے
انہیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے
ان کے الفاظ سے کوئی مطلب نکلتا نہیں ہے
جو تعبیر وتفسیر
اگلوں نے کی تھی
معانی ومفہوم
جو اُن پہ چسپاں کئے تھے
اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے
اور پھر یوں ہوا
چند لوگوں نے یہ آکے ہم کو بتایا
کہ اب ان پرانی کتابوں کو
تہہ کر کے رکھ دو
ہمارے وسیلے سے
تم پر
نئی کچھ کتابیں ’’اُتاری گئی ہیں
انہیں تم پڑھو گے
تو تم پر
صداقت نئے طور سے منکشف ہوگی
بوسیدہ و منجمد ذہن میں
کھڑکیاں کھل سکیں گی
تمہیں علم وعرفان اور آگہی کے
خزینے ملیس گے
اور پھر یوں ہُوا
ان کتابوں کو اپنی کتابیں سمجھ کر
انہیں اپنے سینے سے ہم نے لگایا
ہر اک لفظ کا ورد کرتے رہے
ایک اک حرف کا رس پیا
اور ہمیں مل گیا
جیسے معنی ومفہوم کا
اک نیا سلسلہ
اور پھر یوں ہوا
ان کتابوں سے
اک دن
یہ ہم کو بشارت ملی
آنے والا ہے دنیا میں
اب اک نیا آدمی
لے کے اپنے جلو میں نئی زندگی
ہم اندھیری گچھائوں سے
اوہام کی تنگ گلیوں سے نکلیں گے
ہم کو ملے گی نئی زندگی
اور پھر یوں ہوا
لانے والے کتابوں کے
اور وہ بھی جو اُن پہ ایمان لائے تھے
سب اپنے اپنے گھروں سے
نکل کر
کسی سمت کو چل پڑے
ایسے اک راستے پر
جدھر سے نیا آدمی
آنے والا تھا
یا ہم کو اس کا یقیں تھا
کہ وہ آئے گا اور اسی سمت سے
بس اسی سمت سے آئے گا
اور پھر یوں ہوا
دیر تک ہم نئے آدمی کے رہے منتظر
دیر تک شوق دیدار کی
اپنی آنکھوں میں مستی رہی
دیر تک
اس کی آمد کا ہم گیت گاتے رہے
دیر تک اس کی تصویر
ذہنوں میں اپنے بناتے رہے
دیر تک
اس خرابے میں اک جشن ہوتا رہا
اور پھر یوں ہوا
دیر تک
اور بھی دیر تک
جب نہ ہم کو ملا
آنے والے کا کوئی پتا
اس کے قدموں کی کوئی نہ آہٹ ملی
ہم نے پھر زور سے اس کو آواز دی
’’اے نئے آدمی‘‘
اور یہ آواز اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے
بے نام صحرائوں سے لوٹ کر
پھر ہماری طرف آگئی
اور پھر یوں ہوا
چند لوگوں نے سوچا کہ شاید نیا آدمی
آئے گا اور ہی سمت سے
دوسرے چند لوگوں نے سوچا
کہ شاید نیا آدمی
آئے گا اور ہی سمت سے
اور پھر ہر طرف قافلے قافلے
اور پھر ہر طرف راستے راستے
اور پھر یوں ہوا
دیر تک اس نئے آدمی کی
رہی جستجو
اس کو آواز دیتے رہے
چارسو
کو، بہ کو، قریہ، قریہ
اُسے ہم بلاتے رہے
منزلوں منزلوں
خاک اڑاتے رہے
اور پھر یوں ہوا
سب کے چہرے اسی خاک میں اٹ گئے
سب کی آنکھوں میں اک تیرگی چھا گئی
سب کو ڈسنے لگی آہ کی بے حسی
اور پھر سب وہ اک دوسرے کے لئے
اجنبی ہوگئے
اور پھر سب کے سب
دھند میں کھو گئے
اور پھر یوں ہوا
ہم نے پھر گھر پہ آکر
کتابوں کے اوراق کھولے
انہیں پھر سے پڑھنے کی خاطر اٹھایا
ہر اک سطر پر غور کرتے رہے دیر تک
اور ہر لفظ کو
دوسرے لفظ سے جوڑ کر
سلسلہ حرف نغمہ کا
صوت وصدا کا ملاتے رہے
اور پھر
یاس وامید کے درمیاں
ڈھونڈتے ہی رہے
اس نئے آدمی کا نشاں
اور ہمیں بس ملیں
اپنی آواز کی
زرد سوکھی ہوئی پتیاں
اور پھر یوں ہوا
ہم سے سورج کئی روز روٹھا رہا
آسمانوں سے اٹھتی رہیں
تہہ بہ تہہ بدلیاں
کالی کالی نظر آئیں سب وادیاں
کالے گھر کالی دیوار کالی چھتیں
کالی سڑکوں پہ چلتی ہوئی کالی پرچھائیاں
یہ زمیں
کالے ساگر میں
ٹوٹی ہوئی نائو کی طرح سے
ڈگمگانے لگی
موت کی نیند آنے لگی
اور پھر یوں ہوا
ہم نے اپنے گھروں میں
جلائے خود اپنے دیئے
ہم نے بکھرے ہوئے خواب
ٹوٹے ہوئے آئینے
پھر سے جوڑے
بجھے جسم کی راکھ سے
سَر اٹھاتے ہوئے ایک ننھے سے شعلے کو
اور پھر اپنے چہرے میں
ایک اور چہرے کو دیکھا
پھر اپنے لہو کی صدائیں سنیں
اور اپنے لئے آپ اپنی کتابیں لکھیں
حروف والفاظ کے ذخیرے
حروف والفاظ کے ذخیرے
یہی ہیں وہ دائرے
کہ جن میں اسیر تم بھی ہو اور میں… بھی
تمہارا جو نام
چند حرفوں سے مل کے بنتا ہے
چاہے مفہوم اس کا کچھ بھی ہو
چاہے مفہوم سے وہ خالی ہو
چاہے اس کیفیت کے برعکس ہو
جو تم میں نمود پاتی ہے
ایسی اک روح
جو کسی جسم میں
کسی آئینے میں اتری ہو
ایک پیکر میں ڈھل گئی ہو
مرا بھی اک نام ہے
اسی نام سے لوگ مجھے جانتے ہیں
یہ نام بھی
چند الفاظ کو ملانے سے بن گیا ہے
اب اس کا ذکر مجھ پہ یہ کتنا سج رہا ہے
تو کیا ہمارا تمہارا سمبندھ اتنا ہی ہے
کہ چند الفاظ
چند الفاظ سے مل رہے ہیں
مگر اسی نام کے تو کچھ او رلوگ ہوں گے
اگر نہ ہوں گے تو کل اسی نام کے اور کئی لوگ ہوں گے
اگر ہمارا و جو د ان سے کچھ ماورا ہے
حروف والفاظ سے سوا ہے
تو اس کے اظہار کا اور ڈھنگ کیا ہے
میں گو تم نہیں ہوں
میں گو تم نہیں ہوں
مگر میں بھی جب گھر سے نکلا تھا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے ہی آپ کو
ڈھونڈنے جارہا ہوں
کسی پیڑ کی چھائوں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اک دن مجھے بھی
کوئی گیان ہوگا
مگر جسم کی آگ
جو گھر سے لے کر چلا تھا
سلگتی رہی
گھر سے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی
اور ایک اک پیڑ جل کر ہوا راکھ
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں
جہاں میں ہی میں ہوں
جہاں میرا سایہ ہے
سائے کا سایہ ہے
اور دور تک
بس خلا ہی خلا ہے
آئینہ در آئینہ
میں آج سویرے جاگ اٹھا
دیکھا کہ ہے ہر سوسناٹا
چپ چاپ ہے سارا گھر آنگن
باہر سے بند ہے دروازہ
سب بھائی بہن بیوی بچے
آخر ہیں کہاں؟ ہے کیا قصہ
اتنے میں عجب اک بات ہوئی
ناگاہ جو دیکھا آئینہ
اک آدمی مجھ کو آیا نظر
مجھ سے ہی مگر ملتا جلتا
وہ سینگ ہیں اس کے سر پر آگئے
یہ دیو ہے کوئی یادیوتا
تم کون ہو؟ یہ پوچھا میں نے
پر کوئی نہ مجھ کو جواب ملا
میں کانپ اٹھا تھر تھر تھر تھر
سوچا کہ کروں جھک کر سجدہ
اتنے میں ہوئی اک آہٹ سی
میں سن کے یکایک چونک اٹھا
اب دیر ہوئی اٹھیے پاپا
ہاں مجھ کو دفتر جانا ہے
اس خواب کا لیکن کیا ہوگا؟
لمحے کی موت
کچھ دور تلک،
کچھ دور تلک،
وہ لمحہ اس کے ساتھ چلا
جب اس نے دل میں یہ سوچا
یہ گرتی دیواریں
یہ دھواں
یہ کالی چھتیں
یہ اندھے دیئے
سَنو لاتے ہوئے سارے چہرے
اب اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں گے
جب نگر نگر کی سیاحی
ان ٹیڑھی میٹرھی سڑکوں کی
آوارہ گردی
ہنستے جسم
کھنکتے پیالوں
کی موسیقی
اس کو راس نہ آئی
اس نے کہا
اب آئو لوٹ چلیں
اک شام وہ اپنے گھر پہنچا
اور اس سے ملنے کو آئے
سب ساتھی اس کے بچپن کے
سب کہنے لگے۔
ان جگ مگ کرتے شہروں کا
کچھ حال بتائو
اپنے سفر کی
کچھ روداد کہو
وہ خاموش رہا
وہ دیکھ رہا تھا اس میلے سے طاق کو
جس پر
اب بھی ایک گھڑی رکھی تھی
اور وہ بند پڑی تھی
ز
دنیا داری تو کیا آتی، دامن سینا سیکھ لیا
مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا
ایسے درویشوں سے نبھائی، اپنی ہنسی بھی ساتھ اڑائی
پلکوں کے سائے میں چھپ کر آنسو پینا سیکھ لیا
دھرتی کتنے ناچ نچائے، تب اک کوڑی جیب میں آئے
ایڑی سے چوٹی تک پہنچے کیسے پسینا، سیکھ لیا
اپنے آپ پہ کیوں اترائیں اپنے آپ کو کچھ سمجھائیں
کبھی کبھی ہے جھوٹ بھی کہتا یہ آئینہ سیکھ لیا
ز
یہ مانا ہم نے یہ دنیا انوکھی ہے نرالی ہے
چلے گی چال کیا ہم سے ہماری دیکھی بھالی ہے
عزیزو! تم کو میری چشم ترسے کتنا شکوہ تھا
چلو اب خوش رہو، اپنا یہ پیمانہ بھی خالی ہے
ہر اک غم کا مداوا ایک بے معنی تبسم ہے
مرے دل کا بھروسہ کیا بہت ہی لااُبالی ہے
کہیں محفل جمائیں ہم بھی اب پینے پلانے کی
یہ کیا کم ہے ہمارے پاس جو جام سفالی ہے
جو کچھ احوال ہے اپنا بیاں کرنے سے کیا حاصل
زبانِ خامشی صاحب دلوں کا طرز عالی ہے
ز
کیوں رو رو کر یہ نین گنوائیں، رونے سے کیا ہوتا ہے
سوجا اے دل تو بھی سوجا، سارا جگ ہی سوتا ہے
جس سے چاہیں دل کو لگائیں دنیا والے کیوں سمجھائیں
اتنی بات تو سب ہی جانیں، پریت کئے دکھ ہوتا ہے
میں اور تو میں بھید نہیں کچھ، واحد جمع برابر ہیں سب
سارے دھارے اس سے پھوٹیںسب سے بڑا جو ہوتا ہے
نئی چندریا، پھٹی گدڑیا سب دھوبی کے گھاٹ پہ جائے
سب کے میل کو اک پانی سے دھونے والا ہوتا ہے
ز
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے، ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
اک دن گھر کی چھت پر چڑھے تو دیکھا گھر گھر آگ لگی ہے
جانے ہم پہ کیا کیا بیتی تن کا لہو سب سرف ہوا
رُخ کی زردی بھی ہے غنیمت، اب تو اپنی یہی پونجی ہے
اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں، رات ڈھلی اب تو بھی سوجا
ہم ہی، اکیلے کیسے سوئیں دل کی دھڑکن جاگ رہی ہے
ہر دم فکر کے موتی رولیں، پردو میٹھے بول نہ بولیں
بھید یہاں کے کس پہ کھولیں دنیا ہی کنگال ہوئی ہے
سید نگر نئی نرالی، بھور پھٹے سب ردی والے
روز پکاریں ’’ردی بیچو‘‘ آخر کتنی ردی ہے
ز
میں کہاں ہوں کچھ بتادے، زندگی اے زندگی،
پھر صدا اپنی سنادے، زندگی اے زندگی!
سوگئے ایک ایک کر کے خانۂ دل کے چراغ
ان چراغوں کو جگادے، زندگی اے زندگی!
وہ بساط شعر و نغمہ، رت جگے وہ چہچہے
پھر وہی محفل سجادے، زندگی اے زندگی
جس کے ہر قطرے سے رگ رگ میں مچلتا تھا لہو
پھر وہی اک شے پلادے، زندگی اے زندگی!
اب تو یاد آتا نہیں کیسا تھا اپنا رنگ روپ
پھر مری صورت دکھادے، زندگی اے زندگی
ایک مدت ہوگئی روٹھا ہوں اپنے آپ سے
پھر مجھے مجھ سے ملا دے زندگی اے زندگی
جانے برگشتہ ہے کیوں مجھ سے زمانے کی ہوا
اپنے دامن کی ہود اے، زندگی اے زندگی
رچ گیا ہے۔ میری نس نس میں مری راتوں کا زہر
میرے سورج کو بلادے، زندگی اے زندگی!
ز
اک پل نہیں قرار کہ گردش بہت ہے یاں
ارض و سما کی ہم پہ نواز بہت ہے یاں
ہر آنکھ اپنی لکوں کے سائے تلے ہے غم
ہر سَر پہ ہیں گھٹائیں کہ بارش بہت ہے یاں
لب سی لئے ہیں ہم نے کہ نکلا جو کئی لفظ
کیا کیا نہ گل کھلائے کہ سازش بہت ہی یاں
کس راستے پہ جائوں چلوں کس کے ہم رکاب
جمتے نہیں ہیں پائوں کہ لغرش بہت ہے یاں
ایک ایک بوندتن کا لہو صرف ہوگیا
زخم جگر کی اپنے تراوش بہت ہے یاں
آدم کے واسطے یہ زمیں تنگ ہوگئی
آدم نما کو حقِ رہائش بہت ہے یاں
ز
اپنی بستی چھوڑ کر پردیس میں جائیں گے کیا
یاں تو ہے نانِ جویں بھی واں مگر کھائیں گے کیا
ہر طرف اک سنگباری، گھر سے نکلیں کس طرح
سر سلامت ہی نہ ہو تو سر کو سہلائیں گے کیا
اپنی اپنی فکر سب کو، اپنے اپنے سب کو غم
کوئی مل جائے بھی تو اب دل کو بہلائیں گے کیا
کیسے پچھلی رات گزری، کیسے نیند آئی تمہیں
صبح کا سورج جو پوچھے گا تو بتلائیں گے کیا
ہم بھی تھے عالی دماغ اور ہم بھی تھے عالی نسب
گر کہیں اپنی زباں سے لوگ فرمائیں گے کیا
ز
جی میں ہے معنی بے لفظ کو کیوں کر باندھوں
بَس چلے اپنا تو قطرے کو سمندر باندھوں
گھر کی ویرانی یہ کہتی ہے کہیں اور چلوں
میں کہاں جائوں، کہاں کے لئے بستر باندھوں
تشنگی اپنا مقدر ہے، جزاک قطرۂ زہر
پاس کچھ بھی نہیں کیا بادۂ وساغر باندھوں
ایسی زنجیر کہ بس ایک تمنا ہی رہی
کہ ہمیشہ کے لئے دستِ ستمگر باندھوں
میں نے کیا کیا نہ سنا روح کے سناٹوں سے
دل یہ کہتا ہے کہ اس رات کا منظر باندھوں
سگِ دیوانہ سے بدتر یہ سگِ دنیا ہے
ورنہ سوچا تھا کہ دونوں کو برابر باندھوں
ز
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
وہی اک شے جو اجنبی ہوگی
شورسا ہے لہو کے دریا میں
کس کی آواز آرہی ہوگی
پھر مری روح میرے گھر کا پتہ
میرے سائے سے پوچھتی ہوگی
کچھ نہیں میری زرد آنکھوں میں
ڈوبتے دن کی روشنی ہوگی
رات بھر دل سے بس یہی باتیں
دن کو پھر درد میں کمی ہوگی
بس یہی ایک بوند آنسو کی
میرے حصے کی رہ گئی ہوگی
پھر مرے انتظار میں مری نیند
میرے بستر پہ جاگتی ہوگی
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
ز
کہاں کی مے، کہاں کے جام و مینا
کوئی بتلائے جینے کا قرینا
عجب اک شے ہے زہر آگہی بھی
جسے بھی راس آئے اس کا پینا
نہ جانے کون سا پھر سانحہ ہو
دھڑکتا ہے ابھی سے اپنا سینا
نہ دیکھا چشمِ تر نے کوئی موسم
وہی بس ایک ساون کا مہینا
نہیں اک بوند بھی باقی لہو کی
شکستہ تھا یہ دل کا آبگینا
مگر کچھ لوگ یوں بھی ڈوبتے ہیں
نہ تھا گرداب میں ان کا سفینا
ہے اس کا آخری منزل پہ مسکن
چلے آئو یو نہی زینا بہ زینا
ز
یہ تو میرا اپنا گھر ہے، اپنے گھر جائو میاں!
میرا تمہارا کیا ناتا ہے، کیوں مجھ کو اپنائو میاں
یہ دنیا ہے رنگ رنگیلی، اس کے کھیل نئے نرالے
کون اس کی تھاہ لگائے کتنا ہے گہرائو میاں
کیسا سونا، کیسی چاندی، کیسے کنکر، کیسے موتی
کون بڑی ہے کون ہے چھوٹی کس کا کتنا بھائو میاں
اپنے آپ کو دیکھو بھالو، اپنا آپا آپ سنبھالو!
اپنے دل کو خود سمجھا لو جب جب ہارو دائو میاں
اپنے گھر کی سوکھی روٹی، اپنے گھڑے کا ٹھنڈا پانی!
کھائو پیو اور خوش ہوجائو، بھولو نان پلائو میاں
اپنی چھت کیسی ہو ٹپکتی، راتیں ہیں اس میں ہی کٹتی
کیسا ساون کیسا بھادوں، کیسا ہو برسائو میاں
اپنے آپ کو خود ہی آنکو، ادھر ادھر مت تاکو جھانکو
کچھ نہ بنے تو مٹی پھانکو اس کا بھی اک تائو میاں
کیسی ادھوری کیس سگری، بھر لو اپنے من کی گگری
مت بھٹکو اب نگری نگری، خود اپنے بن جائو میاں
ز
شکستہ تر ہے جو اس خواب کے حصار میں ہوں
مگر میں کیا کروں خود اپنے انتظار میں ہوں
فصیل جسم کو توڑوں تو پھر کہاں جائوں
جو عکسِ روح تپاں ہے اسی غبار میں ہوں
خود آپ اپنے سے الجھوں کہ آئینے سے کہوں
مجھے نہ ڈھونڈ کہ میں اک نہیں ہزار میں ہوں
جو حشر ہوگا سو ہوگا سفینۂ جاں کا
یہی بہت ہے کہ اک بحربے کنار میں ہوں
مرے وجود کی سب کو خبر اسی سے ملی
جو غرقِ خوں ہے اسی تیغ آبدار میں ہوں
خوش آگیا ہے مجھے کیوں خرابۂ ہستی
خیالِ مرگ بتا تو ہی کس دیار میں ہوں
ابھی خود اپنے معانی کی ہے تلاش مجھے
میں لخت لخت ہوں اک سیل انتشار میں ہوں
ز
اگرچہ غیر کے ہاتھوں لہو لہان ہوا
مگر میں اپنی طرف سے بھی بدگمان ہوا
جو پڑگیا تھا کبھی خود مری نگاہوں پر
وہ ایک پردہ مرے حق میں آسمان ہوا
وہ جس کے واسطے دنیا تھی گوش بر آواز
وہ ماجرا مری آنکھوں ہی سے بیان ہوا
تلاش اس کی تھی مقصود، دیر و کعبہ کیا
ہمارا رخ تھا جدھر اس کا اک نِشان ہوا
ہمارے ظرف کو کیا آزماتے اہل ہوس
اسی بہانے خود ان کا بھی امتحاں ہوا
بہت ملول تھے جس دامن دریدہ پر
وہی سفینۂ ہستی کا بادبان ہوا
ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ
وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا
ذرا جو تیز چلے ہم تو کوئی ساتھ نہ تھا
حصارِ فکر ہی بس اپنا پاسبان ہوا
ز
رُخ پہ گرد مِلال تھی، کیا تھی
حاصل ماہ و سال تھی، کیا تھی
ایک صورت سی یاد ہے اب بھی
آپ اپنی مثال تھی، کیا تھی
میری جانب اٹھی تھی کوئی نگہ
ایک مبہم سوال تھی کیا تھی
اس کو پا کر بھی اس کو پانہ سکا
جستجوئے جمال تھی، کیا تھی
صبح تک خود سے ہم کلام رہا!
یہ شبِ جذب و حال تھی، کیا تھی
دل میں تھی پر لبوں تک آ نہ سکی
آرزوئے وصال تھی، کیا تھی
اپنے زخموں پہ اک فسردہ ہسی
کوشش اندمال تھی، کیا تھی
عمر بھر میں بس اک بار آئی
ساعتِ لازوال تھی، کیا تھی
خوں کی پیاسی تھی، پر زمینِ وطن
ایک شہرِ خیال تھی، کیا تھی
باعثِ رنجشِ عزیزاں تھی
خوئے کسبِ کمال تھی کیا تھی
اک جھلک لمحۂ فراغت تھی
ایک امر محال تھی، کیا تھی
کوئی خواہاں نہ تھا کہ جنسِ ہنر
ایک مفلس کا مال تھی، کیا تھی
ز
جلتا نہیں اور جَل رہا ہوں
کس آگ میں، میں پگھل رہا ہوں
مفلوج ہیں ہاتھ پائوں میرے
پر ذہن میں ہے کہ چل رہا ہوں
اک بوند نہیں لہو کی باقی
کِس بات پر میں مچل رہا ہوں
تم جھوٹ یہ کہہ رہے ہو مجھ سے
میں بھی کبھی بے بدل رہا ہوں
کیوں مجھ سے ہوئے گناہ سرزد
کہنے کو توبے عمل رہا ہوں
رائی کا بنا کے ایک پربت
اب اس پہ یوں ہی پھسل رہا ہوں
کیوں آئینہ بار بار دیکھوں
میں آج نہیں جو کل رہا ہوں
اب کون سا در رہا ہے باقی
اس در سے میں کیوں نکل رہا ہوں
قدموں کے تلے بھی کچھ نہیں ہے
کس چیز کو میں کچل رہا ہوں
اب کوئی نہیں رہا سہارا
میں آج پھر سے سنبھل رہا ہوں
میں کیوں کروں آسماں کی خواہش
اب تک تو زمیں پہ چل رہا ہوں
یہ برف ہٹائو میرے سر سے
میں آج کچھ اور جل رہا ہوں
مجھ کو نہ پلائو کوئی پانی
پیاسوں کے میں ساتھ چل رہا ہوں
کھانے کی نہیں رہی طلب کچھ
اب بھوک کے بل پہ پل رہا ہوں
ز
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھائوں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے، اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہِ راہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا
کس کس کو اپنے خونِ جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا
یاروں نے خوب جاکے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بد دماغ یہاں بھی پچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا
ز
درمیاں خود اپنی ہستی ہو تو ہم بھی کیا کریں
آئینہ دیکھیں کہ اپنے آپ سے پردہ کریں
ایک سے لگتے ہیں سب ہی کون اپنا، کون غیر
بے نقاب آئے کوئی تو ہم درِدل وا کریں
حال کے سیلاب میں تو بہہ گئی ماضی کی لاش
دفن اب کس کی گلی میں ہم غمِ فردا کریں
ایک دو پل ہی رہے گا سب کے چہروں کا طلسم
کوئی ایسا ہو کہ جس کو دیر تک دیکھا کریں
کیوں نہ خود اپنا لہو پی کر بجھائیں دل کی پیاس
کس کے گھر کا بھید کھولیں، کس کو ہم رسوا کریں
اب تو امڈا ہی چلا آتا ہے سیلِ آتشیں
چشم تر! ہم کس طرح سے پار یہ دریا کریں
یہ تو سچ ہے زہر لگتے ہیں ہمیں بستی کے لوگ
کس توقع پر مگر آباد یہ صحرا کریں
پاس اپنے کیا رہا بس اک غرورِ مفلسی
اس کی کیا قیمت لگائیں اس کا کیوں سودا کریں
سر پھرے سب جمع ہوں سب کے سروں پر ہوں چراغ
بس چلے تو ہم بھی ایسا جشن اک برپا کریں
ز
ہم تو گدائے گوشہ نشیں ہیں ہم کو غرورِ کمال نہیں
یہ بستی تو بہت بڑی ہے ہم جیسوں کا کال نہیں
گھر میں بیٹھے بیٹھے اکثر سوچتے ہیں ہم گھر میں نہیں
بس اتنی سی بات ہے ہم میں جس کی کوئی مثال نہیں
تنہائی میں بیٹھ کے خود ہی اپنے آنسو گنا کریں
یہ موتی کیا سب کو دکھائیں ایسا ویسا مال نہیں
ہم نے ساری عمر گنوائی اک گھاٹے کے سودے میں
اپنی خوشی سے ایسا کیا ہے، ہم کو اس کا ملال نہیں
ز
طرز جینے کے سکھاتی ہے مجھے
تشنگی زہر پلاتی ہے مجھے
رات بھر رہتی ہے کِس بات کی دُھن
نہ جگاتی نہ سُلاتی ہے مجھے
آئینہ دیکھوں تو کیونکر دیکھوں
یاد اک شخص کی آتی ہے مجھے
بند کرتا ہوں جو آنکھیں، کیا کیا
روشنی سی نظر آتی ہے مجھے
کوئی مل جائے تو رستہ کٹ جائے
اپنی پرچھائیں ڈراتی ہے مجھے
اب تو یہ بھول گیا کس کی طلب
دیس پر دیس پھراتی ہے مجھے
کیسے ہو ختم کہانی غم کی
اب تو کچھ نیند سی آتی ہے مجھے
اپنی آنکھوں میں چھپا لے کوئی
ورنہ ہر آنکھ بلاتی ہے مجھے
ز
سایہ ہوں کوئی کہ اب شفق ہوں
اس بات پر آج خود بھی فق ہوں
سینے میں ہیں بند کتنے سورج
کہنے کو میں ایک ہی اُفق ہوں
اَپنے کو بھی پاسکا نہ اب تک
تہہ دار ہوں اور درطبق ہوں
دیکھو مرا چہرہ تمتمایا
سونا ہوں کہ اس کا اک ورق ہوں
اب اور کوئی کتاب پڑھ لو
میں بھی ہوں کتاب پر اوق ہوں
(ابن انشاء کی یاد میں)
ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا
اے زندگی! اے زندگی؛ رتبہ رہے بالا ترا
اپنا مقدر تھا یہی، اے مبنع آسودگی
بس تشنگی، بس تشنگی گوپاس تھا دریا ترا
اس گام سے اس گام تک زنجیر غم کے فاصلے
منزل تو کیا ہم کو ملے، چلتا رہے رستاترا
تو کون تھا کیا نام تھا تجھ سے ہمیں کیا کام تھا؟
ہے پردۂ دل پر ابھی دھندلا سا اک چہرہ ترا
سورج ہے گو نا مہرباں، ہے سرپہ نیلا سائباں
اے آسماں، اے آسماں دائم رہے سایہ ترا
متفرق اشعار
سب سوئے اپنی اپنی چادر میں منھ چھپا کر
اک میری بیکسی ہے جو اب بھی جاگتی ہے
O
اس جھوٹ سے بالآخر کب تک نباہ ہوگا
جب دل ہے زخم خوردہ ہونٹوں پہ کیوں ہنسی ہے
O
خدا کرے کہ انہیں اور کچھ ثبات ملے
یہ چند صورتیں جن پر ہے آدمی کا گماں
O
جی چاہے تو ڈھونڈھو کوئی جینے کا بہانہ
ورنہ غم ہستی سے یہاں کس کو مفر ہے
بے تیشہ یہاں راہ نکلتی نہیں کوئی
دل والو! سنو سنگ دلوں کا یہ نگر ہے
O
ہم پر پڑا ہے وقت مگر اے نگاہِ یار
کوئی کمی نہ ہوگی ترے احترام میں
ہر سمت آتی جاتی صدائوں کے سلسلے
ہم خود کو ڈھونڈتے ہیں اسی اژدہام میں
کتبہ
خدایا! نہ میں نے کہیں سر جھکایا
نہ دنیا میں احسان اب تک کسی کا اٹھایا
مرے سر پہ جب دھوپ ہی دھوپ تھی
اس گھڑی میں نہ ڈھونڈا کہیں کوئی سایہ
تو اب تو ہی آکر مری آبرو کو بچائے
یہی ایک تحفہ ہے
جو میں ترے پائے اقدس پہ رکھ دوں گا
اور یہ کہوں گا
یہی میری پونجی، یہی ہے کمائی
مجھے اور کچھ بھی عطا کر نہ پائی
یہ تیری خدائی
خدایا!
مری نذر بے مایہ کو دیکھ کر
جس خزانے میں اس کی جگہ ہو
اب وہاں پر اسے ڈال دے
کتبہ
یہ اس شخص کی قبر ہے
جس کے اب جسم کا کوئی ذرہ یہاں پر نہیں ہے
نہ اس کو کوئی کام اس قبر سے
نہ اس کو خبر ہے
کہ یہ کس کا گھر ہے
تو اس شخص کے ایک بے نام گھر کو
کوئی کیوں کسی نام سے آن منسوب کردے
اور اس نام کا ایک کتبہ بنائے
یہ دنیا ہے جس میں، نہ ایسا کوئی گھر بنا ہے نہ آگے بنے گا
کہ اس کا مکیں اپنے گھر میں ہمیشہ رہے گا
تو اب کیا کوئی گھر؟
اور اس گھر پہ اک نام کندہ
کہ جس مرحلے پر کسی کو کسی گھر کی کوئی ضرورت نہیں ہے
کتبہ
مری قبر پر ایک کتبہ تو ہے
پر مرانام اس پر نہیں ہے
مرا نام جو کچھ بھی لکھا گیا تھا
وہ اب مٹ چکا ہے
یہ کتبہ سفید اور سادہ سا ہے
مگر خالی سفید اور سادہ سا ہے
مگر خالی خالی اسے دیکھ کر
ہر اک آنے والا یہ کہتا ہے کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟
بتائو کوئی شخص ایسا بھی ہے
مرا کوئی ہمدرد، میرا معاون
جو آئے اور آکر مرے سادہ کتبے پہ اپنا بھلا سا کوئی نام لکھ دے
اور کوئی اس سے پوچھے کہ اے مسخرے!
تو تو زندہ ہے موجود ہے
پھر ترے نام کی قبر کیسی؟
کیا کوئی یہ ترا کھیل ہے؟
اور وہ شخص پھر یہ کہے
تم سے مطلب؟
یہ مری قبر ہے، ہاں مری قبر ہے
میں اسی قبر میں دفن ہوں!!
کتبہ
یہ اک شخص تھا
جو اکیلا تھا اس کا کوئی بھی نہ تھا
اک اکائی تھا وہ
اور اک دن سو وہ اپنی اکائی میں ضم ہوگیا
اس نے مرتے ہوئے ایک وصیت لکھی
جس میں لکھا تھا!
’’اے آدمی!
اے وہ اک شخص
جو میرے مرنے کی پہلی خبر سن کے دوڑے
اور آواز دے بھائیوں آئو اس کا جنازہ اٹھائو
اور اس آواز پہ کوئی آواز اس تک نہ پہنچے
اور پھر مجھ سے بیکس اکیلے کو کاندھوں پہ اپنے دھرے
اور اکیلی سی اک قبر میں مجھ کو پہنچا کے محفوظ کردے۔
میرا وہ دوست اتنا سا احسان مجھ پر کرے
وہ مری قبر پر ایک سادہ سا کتبہ لگائے
اور اس پر مرا نام لکھ دے
سچ کہوں اس سے میں اپنی شہرت نہیں چاہتا
کیا مرا نام اور کیوں وہ باقی رہے
میں اس واسطے چاہتا ہوں کہ جب
شہر کے لوگ یہ سُن کے دوڑیں
کہ دیکھو یہ مشہور ہے، لوگ کہتے ہیں وہ شخص تو مرگیا
سوچتے ہیں یہ اسی کی شرارت نہ ہو
تاکہ ہم لوگ اب اس غافل رہیں
اس کے فتنے سے اپنے کو محفوظ سمجھیں
بس یہی چاہتا ہوں
کہ ایسا کوئی شخص ڈھونڈے مجھے
تو سہولت ہو اس کو یہ تصدیق کرنے کی
یہ شخص سچ مچ نہیں ہے
وہ اب مرچکا ہے
میں تو اب دشمنوں کے بھی آرام کے حق میں ہوں
کیوں کسی کو کسی سے خلل ہو؟
کیوں کسی کو کسی نام سے ایک دہشت ہو؟
سارے انسان دنیا میں آرام سے
سوئیں اور خوش رہیں۔
کتبہ
یہ کتبہ فلاں سَن کا ہے
یہ سن اس لئے اس پر کندہ کیا
کہ سب وارثوں پر یہ واضح رہے
کہ اس روز برسی ہے مرحوم کی
عزیز واقارب، تیامی، مساکین کو
ضیافت سے اپنی نوازیں، سبھی کو بلائیں
کہ سب مل کے مرحوم کے حق میں دستِ دُعا کو اٹھائیں
زباں سے کہیں اپنی ’’مرحوم کی مغفرت ہو‘‘
بزرگ مقدس کے نام مقدس پہ بھیجیں درود سلام
سبھی خاص وعام
مگر یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے
عزیز واقارب کا شرب وطعام
اور اس کا نظام
لاگ ہو وہاں سے
جہاں ہوں تیامی، مساکین، اندھے، بھکاری
پھٹے اور میلے لباسوں میں سب عورتیں اور بچے
کئی لوُلے لنگڑے، مریض اور گندے
وہی جن کو کہتے ہیں ہم سب عوام
وہاں ہوگا اک شوروغل، اژدہام
یہ کر دینگے ہم سب کا جینا حرام
کتبہ
مرا پیارا ننھا یہاں سو رہا ہے
اُسے پھول سے پیار تھا
وہ خود پھول تھا
میں ہر صبح آتا ہوں کچھ پھول لے کر
اسے تازہ پھولوں کی چادر سے ڈھک کر
چلا جاتا ہوں
تاکہ کل صبح تک اس کی معصوم روح
اپنے پھولوں کی آغوش میں
مسکراتی رہے
یادوں کی روشنی میں
(خلیل الرحمن اعظمیٰ)
انسان اپنے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے چاہے جہاں بھی رہے لیکن رہتا ہے اپنے وطن میں۔ وطن کی مٹی پہچاننے میں اس کو صرف آسانی ہی نہیں ہوتی بلکہ لذت بھی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی بھی سماں پلکوں کے نیچے دھوم مچاسکتا ہے۔ ہر ایک اپنے وطن کو اور وطن اس کو مبارک ہوتا ہے۔ جانی پہچانی راہوں کی دھول چاہے جتنی بار روندی جائے لیکن پیروں سے لپٹی رہتی ہے۔ سارے جہاں کے اتنے بڑے پھیلے ہوئے رقبے کا یہ چھوٹا سا حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک بڑے جسم کا مختصر سادل۔
تتلی کے خوبصورت پروں کی طرح نازک خیالات ایک خطے کی یادوں کے پھولوں پر بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مشرقی یوپی ضلع اعظم گڑھ میں دریا کنور اور ؟؟ کے درمیان ایک گائوں آباد ہے جس کو سیدھا سلطان پور کہتے ہیں۔ اس گائوں میں دھان اور گیہوں کی پیداوار برابر کی ہوتی ہے جنوب اور مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے تھال جیسے تال اور شمال کی طرف کچھ دوری پر ٹونس ندی بہتی ہے۔ گائوں سے ملحق شمال جانب کی زمیں زرخیز اور ہموار ہے اسی کے اندر خلیل الرحمن صاحب کے والد مولانا محمد شفیع صاحب نے کئی ایکڑ رقبے میں ایک خوبصورت اور شاداب آم کا باغ لگوایا تھا۔ کنارے کنارے تخمی آموں کے قد آور درخت کھڑے تھے اور درمیاں میں قلمی آم کے درخت تھے اس کے علاوہ دوسرے پھل دار درخت موجود تھے۔ باغ کے مشرق کی جانب ایک چھاونی بھی تھی۔ کھیتی باڑی کے لوازمات وہیں پر رہتے تھے۔ چچا عبدالغفار صاحب زیادہ تر باغ میں رہا کرتے تھے۔ فارسی تعلیم اور ادبی ذوق رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا کام سنبھالے ہوئے تھے اس خاندان کا ذریعہ معاش مختصر سی کھیتی تھی۔
خلیل صاحب کے ذہن میں باغ کے اندر پھلواری لگانے کا خیال پیدا ہوا۔ عملی طور پر دوسرے لوگ بھی ساتھ ہوگئے اور پھلواری لگ گئی، جس کے اندر مختلف پھولوں کے پودے تھے۔ مثلاً ہار سنگھار، موتیا، بیلے، گیندے، گلاب وغیرہ۔ اس باغ کی یاد خلیل صاحب کے اشعار میں یوں محفوظ ہے۔
کچھ دنوں گائوں کی گلیوں میں اداسی ہوگی کچھ دنوں کھل نہ سکے ہوں گے مرے ہار سنگھار کچھ دنوں کے لئے سنساں سا لگتا ہوگا آم کے باغ میں بے چین پھری ہوگی بہار اس باغ کے اندر ان کا آبائی قبرستان بھی ہے۔ یہی خاموش قبریں ان کے بزرگوں کی آخری منزلیں ہیں۔ لیکن یہاں نہ ہوکا عالم ہے نہ ہرسو سناٹا ہے۔ جیسے دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ تہ خاک سونے والوں کو تنہائی کا احساس نہیں ہوتا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آبادی سے ملی ہوئی دوسری آبادی ہے۔
گائوں کے اردگرد محمد پور، دولت پور، ابڈیہہ منجیر پٹی، بینا پارہو وغیرہ گائوں آباد ہیں۔ گائوں کی آبادی ملی جلی ہے۔ پڑھا لکھا گھرانہ مولانا محمد شفیع صاحب کا تھا جو مشرقی تعلیم سے بہر ہ ور تھا۔ دوسرا مسعود صاحب کا تھا جو نئی تعلیم سے جلوہ گر تھا۔ عزیز خاں گائوں کے سب سے بڑے زمیندار تھے۔ خلیل صاحب کے گھر سے شمال جانب شمس الدین صاحب کا مکان تھا۔ پردیس کی آمدنی کی بدولت خوشحالی کی زندگی گزارتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے فاروق احمد صاحب کی تعلیم کی طرف کافی توجہ دی۔ بیٹے نے باپ کی خواہشات کی لاج رکھی۔ امتیازی کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ مولانا محمد شفیع کے ہاتھوں مدرستہ الاصلاح سرائے میر کی بنیاد رکھی تھی۔ مولانا عالم دین اور رہبر قوم بھی تھے۔ ’’اصلاح المسلمین‘‘ تحریک کے ذریعے علاقے سے شرک وبدعت کے انسداد کا بیڑا اٹھایا گیا۔ اس تحریک کی عملی شکل مدرستہ الاصلاح کی صورت میں نمایاں ہوئی۔ مدرسہ کی بنیاد سب سے پہلے منجیر پٹی گائوں میں پڑی۔، پھر حالات کے تحت یہ مدرسہ سرائے میر میں منتقل ہوگیا۔ مولانا حمید الدین فراہی کے بعد مرسے کے اندر دوسری ہستی مولانا امین اصلاحی اور پھر مولانا اختر احسن اصلاحی کی پائی گئی۔ مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب اسی گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بیٹے مولانا غالب احسن باپ کے صحیح قائم مقام تھے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب جو جماعت اسلامی کے صرف رکن ہی نہیں ہیں بلکہ اہلِ نظر اور اہل زبان ہیں۔ بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں اسی گائوں کے لائق فرد ہیں۔ گائوں کی دوسری قابل ذکر ہستیاں یہ ہیں۔ مولوی مصطفی، عبدالرحمن ناصر اصلاحی، عبدالحیٔ، محمد اسمٰعیل، معین الدین، جمال الدین، راجہ، محمود، اسلم، اسحاق، رام کشن، بال کشن، قمر الدین، مگر ورام ساگرم، رامدھاری وغیرہ۔ خلیل صاحب کے مکان کے بالکل سامنے ایک بزرگ نواب صاحب رہا کرتے تھے، ان کی رہ گزر عام زندگی سے بالکل مختلف تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فنا اور بقا کی منزلیں طے کرنے کے بعد اپنی زندگی بھول چکے ہیں۔ خلیل صاحب نے ان کی زندگی سے متاثر ہو کر ایک مضمون لکھا تھا۔ خلیل صاحب کی پہلی نظم اپنی پھلواری پر لکھی گئی، ’’پھر انوکھا کھیل‘‘ رسالہ غنچہ میں چھپی اور پہلا مضمون نواب صاحب پر لکھا گیا۔ خلیل صاحب، محمد بشیر کے گائوں سے بھی کافی متاثر تھے ان کے گائوں کے بارے میں بھی لکھنا چاہتے تھے۔ ولی بھانڈ بھی کافی ذہین تھے۔ ہر شادی بیاہ کے موقع پر سیہی پور کے جمن بھانڈ ان سے مات کھا جاتے تھے۔ محمد اسمٰعیل ان سے مات کھا جاتے تھے۔ محمد اسمٰعیل شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔، ان کا تخلص میکشؔ تھا۔
مولانا محمد شفیع کی پہلی بیوی سے فیض الرحمن اور دوسری بیوی رابعہ بیگم سے عزیز الرحمن، حبیب الرحمن، عبدالرحمن اور خلیل الرحمن تھے۔ بیٹیوں میں بشریٰ اور صغریٰ تھیں۔ بیٹوں میں حبیب الرحمن اور بیٹیوں میں صغریٰ اب بھی موجود ہیں۔ عربی مدارس میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہاں طلباء کو کسی حد تک اسلامی تاریخ سے روشناس کرادیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے ملک کی تاریخ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں۔ مگر محمد شفیع صاحب کو ہندوستان کی تاریخ سے گہری دلچسپی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ان کے پاس حاضر ہوتا تھا تو اکثر چندر گپت موریہ کے بارے میں پوچھ گچھ کیا کرتے تھے۔ پاٹلی پترارتھ شاستروغیرہ سے سے دلچسپی ہندوستانی تاریخ کے بارے میں ان کے معلومات کی شاہد تھی۔ خلیل صاحب کو محبت میں لوُ لوُ کہا کرتے تھے۔ اسی لوُ لوُکی تعلیم وترقی اور چمک ودمک علم کے سمندر کی آغوش ہی سے شروع ہوئی پھر گھر سے ملحق مکتب میں بٹھا دئے گئے۔ خلیل صاحب کے سب بھائی ’’مدرستہ الاصلاح کے فارغ تھے۔ عزیز الرحمن اور عبدالرحمن پروازؔ ادبی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ عزیز الرحمن اچھے انشا پرداز تھے۔ اخبار ’’مشرق‘‘ اور رسالہ ’’کونین‘‘ کے ایڈیٹر رہے جو گور کھپور سے نکلتے تھے۔ بعد میں رسالہ ’’اصلاح‘‘ کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ یہ رسالہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر سے نکلتا تھا۔ صبح کو مدرسہ جاتے اور شام کو واپسی ہوتی۔ راستہ منجیر پٹی سے گزرتا تھا۔ راہ چلتے ہوئے کوئی شعر ترنم سے پڑھتے رہتے تھے۔ شعر وشاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ عبدالرحمن پروازؔ کے اندر شاعری سے زیادہ تحقیقی رجحانات پائے جاتے تھے۔ ثبوت میں ان کی کتاب (مخدوم علی مہائمی۔ حیات آثار وافکار) اب بھی موجود ہے۔ خلیل صاحب خاندانی روش سے ہٹ کر مدرستہ الاصلاح کے بجائے بینا پارہ پرائمری اسکول میں داخل ہوگئے۔
بینا پارہ پرائمری اسکول میں ان کے گائوں کے مولوی مصطفیٰ صاحب ہیڈ ماسٹر تھے جو نارمل پاس تھے۔ ان کے علاوہ نائب مدرس شفیع اللہ صاحب تھے۔ دونوں کے مزاج میں گرمی اور سردی کا فرق تھا۔ مولوی مصطفیٰ صاحب کی دن میں کئی قمچیاں ٹوٹ جاتی تھیں لیکن مولوی شفیع اللہ صاحب کے ہاتھ میں کبھی قمچی نظر نہیں آتی تھی مگر ان کا زبردست طمانچہ آج بھی پچھلے دنوں کی یاد دلاتا ہے۔ خلیل صاحب ہمیشہ اس پٹائی کے ماحول میں بری رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی وہ عالم ریاضی میں کلاس کیا پورے اسکول میں چکر ورتی کہلاتے تھے۔ اردو کے معانی اور مطلب کے سلسلے میں اپنی جماعت کے لیے بڑا سہارا تھے۔ ان کے دوست اور کلاس کے ساتھی ابوالحسن خاں، زین الدین، بدرالدین، محمد اسماعیل، عبدالحیٔ، نیاز احمد قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اسکول کے دوسرے لڑکے ان کے جاننے والے اور دوست تھے۔ مثلاً مگر وہ ساگر، غالب احسن، حامد علی، بدرالہدیٰ، اسلم، عبدالحیٔ، رام دھاری، وصی الدین، احسان احمد وغیرہ۔ لیکن خلیل صاحب اپنی متانت وصلاحیت کی وجہ سے آتش اسکول سے کیسے اثر انداز ہوسکتے تھے۔ بدرالدین کے ساتھ اسکائوٹ رسالہ پڑھا کرتے تھے جو اسکول میں آیا کرتا تھا۔ پرائمری درجہ چار پاس کرنے کے بعد سرائے میر اسکول میں پہنچ گئے۔ سیدھا سلطان پورا اور میرے گائوں منجیر پٹی سے سرائے میر مڈل اسکول کا فاصلہ ایک کوس یعنی دو میل کا بتایا جاتا تھا۔ کوئی سڑک نہیں تھی دوری یا فاصلے کا تعین روایتی طور پر طے ہوتا تھا۔ اردگرد کے تمام گائوں سے یہ دوری ایک کوس مانی جاتی تھی۔ ہم لوگ صبح نو بجے پیدل جاتے اور شام کوپانچ بجے کے قریب پیدل واپس ہوتے تھے۔ اس علاقے میں کوئی بھی موسم اپنی بے اعتدالی سے باز نہیں آتا تھا لیکن ہم لوگوں کو حاضری میں کبھی بے اعتدالی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ برسات میں جب کہیں راستے میں پانی بھر جاتا تھا تو کانٹوں سے ملبوس مینڈوں پر سے گزرتے ہوئے کیا کیا کرتب دکھانے پڑتے تھے۔ گرمیوں میں جب سویرے کا اسکول ہوتا تھا تو چھٹی بھی سویرے ہوجاتی تھی واپسی دہکتی دوپہر میں ہوتی جب سائے کی طلب بڑھتی تھی تو کتاب اور کاپیاں سروں پر چڑھائی جاتی تھیں۔ اٹھتے ہوئے بگولے اور گرم ہوا کے جھکڑ جسم کو جھلسانے کے بجائے چھو کر گزر جاتے۔ راستے کے درمیانی حصے میں آم کا تنہا درخت جیسے ہم لوگوں کے انتظار میں کھڑا رہتا تھا۔ اس کو اکلواآم بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے پھل کے حق دار تو صرف چروا ہے ہوا کرتے تھے جو اس کے پاس زیادہ وقت گزارتے تھے لیکن اس کی چھائوں میں بیٹھ کر سب دم لیتے تھے۔ مڈل اسکول میں خلیل صاحب کے ہم جماعت اور دوستوں میں اضافہ ہوا۔ زین الدین، محمد اسماعیل اور نیاز احمد کا ساتھ تو بینا پارہ سے ہی تھا اب ان کے ہم جماعت اور دوست مختار احمد، صدر الدین طلحہ، مظفر، محمد ابراہیم، شنکر پر شاد ضیا، رام کشن، حامد علی وغیرہ ہوئے۔ ہم لوگ دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ وقفے کے اندر کہیں دائرہ بنا کر کھا لیا کرتے تھے۔ ساتویں کلاس چونکہ فائنل کلاس ہوا کرتی تھی اس لئے اس کی تیاری کے سلسلے میں رات کے وقت اسکول میں رہنا پڑتا تھا۔ خلیل صاحب اور نیاز احمد کا کھانا مدرستہ الاصلاح سے آتا تھا۔ باقی لوگ وہیں بورڈنگ میں تیار کرتے تھے یا قصبے کے کسی ہوٹل میں کھا لیا کرتے تھے۔ خلیل صاحب پیدائشی ادیب بچہ تھے۔ اپنے اندر ڈوب کر سراغ زندگی پالینے کا حوصلہ ان میں پہلے ہی پایا جاتا تھا۔ ورنہ مڈل اسکول کی سطح کے طالب علم کے اندر نمودِ ادب تھی یا اندر کالا وا نکلنا شروع ہوگیا تھا۔ بچوں کے رسالوں میں ان کی کہانیاں چھپنا شروع ہوگئی تھیں۔ مثلاً پیام تعلیم، غنچہ، پریم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ’’غنچہ‘‘ کے ایڈیٹر شاغل فخری نے ان کی نظم ’’انوکھا کھیل‘‘ کے چھپنے کے ساتھ ساتھ پانچ سو روپے کے انعام کا اعلان کیا تو ہلچل مچ گئی۔ اس وقت خلیل صاحب اپنے نام کے ساتھ مستقیمی لگایا کرتے تھے۔ ان کے گائوں کا نام سیدھا سلطان پور ہے۔ سیدھا سے مستقیم بنا پھر مستقیم سے مستقیمی لکھا کرتے تھے۔ اس گائوں کی چہل پہل کے پیچھے فاروق احمدکا ہاتھ تھا۔ انہیں کی وجہ سے دیہاتی اکاڈمی قائم ہوئی، ایک دارالمطالعہ قائم ہوا، تقریری جلسے ہونے لگے، تحریری مقابلے شروع ہوئے اور بیت بازی کا مقابلہ ہونے لگا اور ایک قلمی رسالہ ’’بیداری‘‘ نام سے نکالا گیا جس کے ایڈیٹر خلیل صاحب مقرر ہوئے۔ بچپن کی یادیں کتنی سہانی ہوتی ہیں جو مختلف طرح سے قائم رہتی ہیں۔ خلیل صاحب کے دوستوں نے ان کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے ان کے خطوط کو محفوظ کر رکھا ہے۔ ۸۶ ء میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کے بچپن کے دوست اور مڈل اسکول کے ساتھی محمد ابراہیم صاحب کے پاس کافی تعداد میں ان کے خطوط موجود ہیں۔ چند خطوط آپ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جو مڈل اسکول کے زمانے میں لکھے گئے تھے۔
سیدھا سلطانپور
یکم جولائی ۴۰ ء برادرم! سلام مسنون
چوں کہ کل خط جلدی میں لکھا تھا شاید پڑھنے میں بھی وقت ہوئی ہوگی معاف کرنا۔ دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں خط سے مجھے کتنی خوشی حاصل ہوئی، بیان نہیں کرسکتا۔ دن بھر بار بار پڑھتا رہا اور ہر مرتبہ ایک نیا لطف آتا رہا۔
میں سمجھتا تھا کہ تم مجھے بالکل بھول گئے۔ لیکن الحمد اللہ کہ تم ابھی تک میرا غم سہتے ہو۔
ذرا محنت سے پڑھو اور اچھے نمبر سے پاس ہوجائو۔ بری صحبت سے بہت پرہیز کرو۔ چونکہ میں خود اس کا نتیجہ پاچکا ہوں اس لیے تم کو بھی آگاہ کرتا ہوں۔ میں اپنے احباب سے اس لیے بہت شرمندہ ہوں۔ ہاں غالب تم کو بہت یاد کرتے ہیں، ذرا ان کا سلام قبول کرو اور تصور میں ان سے باتیں کرو۔ خفانہ ہونا تمہارے لیے ایک رومال بھیج رہا ہوں۔ امید ہے کہ قبول کرو گے اور ملنے پر مطلع کرو گے۔ بس اب رخصت کبھی کبھی خیریت سے مطلع کیا کرو۔
تم سے ۳ میل کی دوری پر
تمہارا ایک دوست خلیل
سیدھا سالطان پور
۳۰؍ نومبر ۱۹۴۰
بھائی ابراہیم! خوش رہو
بہت خوب! میں ابھی ابھی تم لوگوں کے پاس پہنچوں گا۔
ایک دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سینہ میں یاس حسرت وحرماں لیے ہوئے اخلاق… ساگر سے سلام کہیو ضیا خنجرسے۔
تمہارا
خلیل مستقیمی
سیدھا سلطان پور
۲؍ اپریل ۱۹۴۱ ء
پیارے دوست
خط اور کتاب دونوں ملیں۔ بہت انتظار کا مزہ اٹھانے کے بعد ’’آتش زنی‘‘ کی خبر سن کر افسوس ہوا۔ لیکن بھئی مشیت ایزی میں کس کو دخل ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ کیوں ابراہیم تم مجھے ’’خلیل الرحمن صاحب‘‘ لکھتے ہو گویا کسی غیر کا خط ہے۔ شاید تم نے پیارے خلیل کا القاب بھلا دیا افسوس! اب ایسا نہ کرنا۔ کچھ تو معلوم ہو کہ کسی دوست کا خط ہے۔
بیداری کے تیسرے نمبر کی تیاری ہے۔ بہت سے لوگوں کے مضامین آگئے ہیں۔ تم بھی کوئی آسان اور مختصر مضمون لکھ کر بھیج دو۔ اچھا! ایک بار پھر لکھتا ہوں کہ فلک کی ’’ستم ظریفی‘‘ پر میری بہترین ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
تمہارا
خلیل الرحمن
سب سے زیادہ میرے پاس ان کے اس زمانے کے خطوط موجود تھے اور حفاظت کے ساتھ ایک بڑے لفافے میں رکھے ہوئے تھے لیکن میری لاعلمی میں میری بھاوج صاحبہ نے ان کو گلا کر ڈلیا بنا لیا۔
ان خطوں میں بے تکلفی اور بے باکی اس طرح پائی جاتی تھی جیسے سطر سطر بول رہی ہو۔ تحریر ایسی کہ جیسے کورے کپڑے پر اس کنواری نے کشیدہ کاری کی ہو جس کو اپنی منگنی کا یقین ہوچکا ہو۔ خطوط مختصر بھی ہوتے تھے اور طویل بھی جن میں خوشی، ارادے اور ادبی اشارے پائے جاتے تھے غم کا کوئی اظہار نہیں ہوتا تھا کیوں کہ بچپن میں تو غم خود ہی غم زدہ ہوتا ہے۔
ساتویں کلاس کی جب پارٹی ہوئی تو خلیل صاحب نے اپنی نظم پڑھ کر سنائی، بہت پسند کی گئی۔ نیچے کے کلاسوں کی طرف سے میری نظم پڑھی گئی۔ ایک شعر یاد ہے۔؎
ہیں نیاز مرے دشمن پرواہ نہیں کچھ اس کی
ہفتہ کے روز ان کو دل سے دعائیں دیں گے
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیل صاحب کا فائنل امتحان ہفتہ کے روز شروع ہوا تھا۔ نیاز احمد وہی جوان کے پرائمری کے ساتھی اور دوست۔ آج کل حاجی نیاز احمد ہیں اور دولت پر اسم اعظم کی پھونک مارتے ہیں۔ بچپن کا اختلاف اور ٹن پھن بھی دوستی تصور کی جاتی تھی۔ ان کا مڈل کا امتحان اعظم گڑھ کے شہر میں مشن اسکول کے اندر ہوا تھا۔ یہ لوگ ایک مندر میں ٹھہرے ہوئے تھے جو جیل کے قریب باندھ کے مغرب جانب ہے۔ مندر کے ستونوں اور دروازوں پر خلیل صاحب کی تحریر ثبت ہوئی تھیں۔ جس طرح رقاصہ کے پیراور گویے کا گلا قابو میں نہیں رہتا ہے اسی طرح ان کا قلم قابو میں نہیں رہتا تھا۔ کورس کی کتابیں کم اور غیر درسی کتابیں زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ گائوں میں جو کتب خانہ کھولا گیا تھا وہ ان کے مکان سے ملی ہوئی مسجد کے اوپری کمرے میں واقع تھا۔ کتب خانے کے دروازے پر لکڑی کا بورڈ لگادیا گیا تھا جس پر ’’دارالمطالعہ سیدھا سلطان پور‘‘ لکھا ہوا تھا۔ روح کتب خانہ خلیل صاحب ہی رہے۔ لوگوں کے درمیان دارالمطالعہ کی اشاعت کرتے اور شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت کتب خانے کے اندر گزرتا تھا جس طرح شہد کی مکھی باغوں اور پھولوں کا چکر لگانے کے بعد چھتے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح خلیل صاحب ہر طرف سے فارغ ہو کر کتب خانے میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہاں پر میری معلومات ساتھ چھوڑ رہی ہے کہ کتنی مختلف قسم کی معیاری کتابیں کتب خانے کے اندر موجود تھیں، سب سے پہلے میں نے مجنوںؔ گور کھپوری کی کتاب ’’سمن پوش‘‘ یہیں پڑھی تھی اس کے اندر کیا تھا اس وقت سمجھ میں نہیں آیا تھا تو اب کیا یاد ہوگا۔ اس کتب خانے کی وجہ سے خلیل صاحب کے ادب اور فن کے بال وپر نکلنے میں آسانی پیدا ہوئی۔
خلیل صاحب مخمصوں میں پڑنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کی گرفتار اور کردار میں تضاد اور ملمع کاری نہیں پائی جاتی تھی۔ تعلقات کی بنا پر وضع داری ضرور نبھائی جاتی تھی۔ اختلاف کی صورت میں خفگی پائی جاتی تھی۔ لیکن پھر بھی تعلقات کی استواری میں فرق نہیں آتا تھا۔ خود کبھی پھولتے نہیں تھے۔ بلکہ پھولے ہوئے کو پچکارنے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی ان کے منہ سے گالی نہیں سنی گئی۔ اور نہ ہی بچپن کی کسی کجی میں پائے گئے۔ فحش باتوں سے ہمیشہ دور رہے، کوئی اخلاق سوز حرکت نہیں کی۔ زیادہ خوشی کے اظہار کے وقت ہاتھوں کے خطوط تیزی سے بنتے اور بگڑتے تھے۔ قہقہہ لگاتے وقت جھک جھک پڑتے تھے۔ غصہ کی حالت میں چہرہ سرخ ہوجاتا تھا، آواز تیز ہوجاتی تھی لیکن روتے ہوئے کبھی نہیں پائے گئے۔ مذاق میں جس کے پیچھے پڑجاتے تھے۔ اس کے بال وپر نوچ ڈالتے تھے۔ کھیل سے دلچسپی کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔
اس زمانے میں مڈل کلاس پاس کرنے کے بعد انگریزی اسکول میں پڑھنے کے لیے اسپیشل کلاس میں داخلہ لینا پڑتا تھا جس میں صرف انگریزی پڑھائی جاتی تھی جو چھٹی کلاس کے برابر ہوتا تھا اس طرح مڈل پاس کرنے والا طالب علم ایک سال آگے بڑھنے کے بجائے ایک سال پیچھے ہوجاتا تھا۔ فرسٹ کلاس مڈل پاس کرنے کے بعد خلیل صاحب نے اسپیشل کلاس میں داخلہ نہیں لیا بلکہ مدرستہ الاصلاح میں مختلف لوگوں سے عربی، فارسی اور فاروق احمد صاحب سے انگریزی سال بھر پڑھنے کے بعد شبلی اسکول میں ساتویں کلاس کے اندر داخلہ لیا۔ یہاں پرانے ساتھی نیاز احمد، مختار احمد اور صدر الدین کے علاوہ ان کا حلقۂ احباب بڑھتا گیا۔ کچھ نام قابل ذکر ہیں۔ بابودیان، علی حماد عباسی، سہیل سلطان، غلام صابر حنفی، مرزا اسلم بیگ، (پاکستان کے ریٹائرڈ چیف آف آرمی اسٹاف) ذکی الدین، عبدالقیوم، مشتاق احمد عراقی، فیض الرحمن عراقی، اقبال احمد عراقی، عقیل احمد، فضا، مقبول احمد، عبدالرحمن وغیرہ بابودیان دھان پان کے آدمی تھے۔، پڑھنے لکھنے میں واجبی تھے۔ لیکن ان کا نستعلیق ہونا خلیل صاحب کو کافی پسند تھا، شبلی منزی کی خوبصورت مسجد سے نماز پڑھ کر ہم لوگ آرہے تھے کہ خلیل صاحب نے گلاب کا ایک پھول توڑ لیا۔ بابودیان نے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ خلیل صاحب نے فوراً یہ شعر پڑھا۔؎
یہی ہے شان خودداری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کر لے
بابودیان خاموش ہوگئے ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ ڈاکٹر اقبالؔ کے شعر میں کہاں ڈنڈی ماردی گئی تھی۔ علی حماد جیسی بے ہنگم ہستی سے صرف نباہ ہی نہ کیا بلکہ سدھا نے کے بعد لکھنے پڑھنے کا ذوق عطا کیا۔ سہیل سلطان کا رنگ پختہ اور چمکدار تھا لیکن دل کے بڑے اچھے بے تکلف اور ہنس مکھ دوست تھے انہوں نے ان سے متاثر ہو کر ایک مزاحیہ نظم لکھی جس کا ایک ٹوٹاپھوٹا مصرعہ یادوں کے سہارے پیش کرتا ہوں۔
کوے سے زیادہ کالے ہیں کوئل سے زیادہ گورے ہیں۔
سہیل سلطان نے برا نہیں مانا کیوں کہ خلیل صاحب نے مزاح سے بڑھ کر طنز کی طرف قدم نہیں اٹھایا تھا۔ شاعری کا طوفان تو ان کے سینے میں مقید تھاہی لیکن اس کا کھل کر اظہار نہیں ہورہا تھا۔جس طرح آج کل کسی اٹامک انرجی کا تجربہ کسی بنجر زمین میں ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیل صاحب نے اپنی شاعری کا تجربہ ایسے لوگوں کے ذریعہ شروع کیا۔ جو شاعری سے ناآشنا ہوتے ہوئے بھی شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے۔ غلام صابر حنفی کو اکثر اپنی نظمیں اور غزل لکھ کر دیا کرتے تھے۔ وہ بڑے طمطراق کے ساتھ کالج کے مشاعروں میں پڑھا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک نظم انہوں نے پڑھی جس کا مصرع یہ تھا۔
کہ کالج میں صابر نواب آرہا ہے
مرزا اسلم بیگ کو ہاکی کا کافی شوق تھا لیکن اندازہ نہیں تھا کہ ہاکی کھیلنے والا ہاتھ بندوق اور رائفل سے کھیلے گا شعر وشاعری سے نہیں لیکن درجہ شاعری سے ناآشنا نہیں تھے خلیل صاحب سے کانا پھوسی کرتے تو دور سے کان میں پڑا ہوا لفظ ’’مکھن‘‘ آج بھی یاد ہے۔ جس طرح پاکستان میں الجھے ہوئے مسائل کو بڑی حد تک سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح بچپن میں میرے اور اشتیاق احمد کے درمیان صلح کرائی تھی،۔ بچپن ہی سے ان کے خیالات بڑے سلجھے ہوئے تھے۔ خلیل صاحب سے خط وکتاب بھی رہتی تھی۔ ایک خط کا مختصر حصہ یہ ہے ۔
میں اسکول میں تیسرے ہی درجہ سے پڑھتا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں تک ہوسکے ہمیں دوستوں کی تعداد کم رکھنی چاہئے صرف دو قسم کے لڑکوں سے دوستی ہو، ایک وہ جو پڑھنے میں اچھے ہوں اور وہ جو اخلاقی لحاظ سے اچھے ہوں۔‘‘ قیوم صاحب صرف پڑھائی سے سروکار رکھتے تھے۔ محنت کا یہ عالم تھا کہ جب چھٹیوں میں گائوں جاتے تو گنے کے کھیت میں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن جب آٹھویں کلاس میں وظیفے کا امتحان ہوا تو وظیفہ خلیل صاحب کو ملا اور ہم لوگوں کو گلابی ریوڑیاں ملیں۔ مختار صاحب نے تمام مضامین کے ساتھ ساتھ کپڑے کی تجارت کے مضمون کو بھی شامل کرلیا تھا جس کے اندر ان کو امتیازی شان حاصل ہوئی۔ باقی مضامین خودبخود اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ نیاز احمد کو پڑھائی کے علاوہ باقی ہر کام سے دلچسپی تھی۔ جو پڑھائی کو تباہ کرنے میں ان کا ساتھ دے سکے۔ ہائی اسکول کا جب نتیجہ نکلا تو گزٹ ان کے ہاتھ میں تھا، بلا کر کہا۔ دیکھو خلیل صاحب فرسٹ آئے ہیں میرے جیسا نتیجہ پورے یوپی میں کسی کا نہیں ہے۔ مجھے جیسے جھٹکا سا لگا پھر سوچا کہیں خلیل صاحب کے پاس سیٹ تو نہیں پڑگئی تھی کہ تاک جھانک کر کام نکال لیا گیا ہو۔ پر خود ہی سمجھاتے ہوئے کہا کہ پورے یوپی میں کوئی ایسا طالب علم نہیں ہے جو سب مضامین میں فیل ہو۔ یہ مرتبہ تو صرف خاکسار کو ملا ہے۔
اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کافی زوروں پر تھی۔ خلیل صاحب اس میں پوری طرح رنگے ہوئے تھے۔ علی حماد عباسی اور دوسرے ان کے ایسے ہم نوا ہوئے تھے جیسے للکار رہے تھے۔ شبلی منزل ان کا گوشۂ ادب تھا۔ ابوعلی یعنی مولانا عبدالباری صاحب سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ شہر سے باہر کلکٹری کچہری کے پاس مہتا لائبریری ہے جہاں روزانہ شام کو پڑھنے جایا کرتے تھے واپسی میں ترقی پسند تحریک سے متعلق کتابیں نکلوا کر ساتھ لایا کرتے تھے۔ کرشن چندر کی کتاب ’’نئے زاویے‘‘ کو مرکزیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ منٹو، عصمت، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے بارے میں ہر وقت بحث ومباحثہ ہوا کرتا تھا۔ اب دھیرے دھیرے بہت سارے رسالے اور میگزین خلیل صاحب سے واقف ہوتے جارہے تھے اور وہ ان کو اپناتے جاتے تھے۔ اس عمر میں فن کی گرہیں کھولنا آسان تھا۔ درسی کتابوں سے زیادہ ادبی کتابوں کا مطالعہ طویل ہوتا جارہا تھا۔ بحث اور مباحثے روز مرہ زندگی کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔
ہائی اسکول میں فرسٹ کلاس آئی۔ مستقبل سوالیہ نشان بن کر سامنے کھڑا ہوگیا۔ کہ اب کیا کیا جائے؟ زندگی کا یہ اہم موڑ نازک اور خطرناک تھا۔ مشرقی علوم کی راہیں منقطع ہوچکی تھی۔ اور نئی تعلیم کے امکانات کا فقدان تھا کیوں کہ گھر کے حالات اور معاشی بدحالی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اس جانب مزید کوئی قدم اٹھایا جائے۔ علی گڑھ کی افسانوی حیثیت فاروقی احمد صاحب اور نبے بھائی (نبی حیدر صاحب) کے ذریعہ حقیقت کا روپ اختیار کرچکی تھی جو خلیل صاحب کے قلب کو گرمانے اور ہمت دلانے کا باعث بنیں۔ علی گڑھ ہر کسی کو کیسے اپناتا ہے اور گرتے ہوئوں کو کیسے سنبھالتا ہے، نبے بھائی کو خوب معلوم تھا۔ پڑوس میں رہنے کی وجہ سے خلیل صاحب کے حالات سے خوب واقف تھے۔ مگر پھر بھی علی گڑھ آنے کی ترغیب دیتے رہے۔ جذبہ اور ہمت کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادی گئی۔ حقیقت اور خواب گلے مل گئے۔ والد صاحب خلیل صاحب کی نئی تعلیم کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کی خواہشات، آرزوئیں اور دعائیں ان کے ساتھ رہیں۔ مالی مدد کے لیے ایک درویش کی جھولی میں کیا تھا صرف پانچ سو روپے۔ بڑے بیٹوں سے کہا کہ خلیل کی تعلیم پر صرف ہوں گے۔ لیکن خلیل صاحب ہائی اسکول کا امتحان دے رہے تھے اسی خوشی کے مواقع کوزائل نہیں کیا۔ اب انہوں نے بن باس لے لیا۔ خزاں رسیدہ رت بدلتی رہی۔ موسموں کے جوان شگوفے کھلتے رہے۔ آم کے بور اور نیم کے پھولوں کی خوشبو فضا میں پھیلتی رہی۔ ہریالی کے درمیان گائوں کی شکل نکھرتی رہی۔ کھیتوں کی مٹی اپنا جادو دکھلاتی رہی۔ تالابوں کی تھال میں بچے اپنی شکل دیکھتے رہے۔ ٹونس کی موجیں اپنا سر پیٹتی رہیں۔ مدھ میں ڈوبی ہوئی تیز ہوائیں پھرتی رہیں۔ کوئل اور پپیہے کی آوازیں موسم جگاتی رہیں، مہرباں رات چاندنی کے ذریعہ بلاتی رہی، خوشبوئوں کا پیغام جاتا رہا۔ ماں کا سفید آنچل لہراتا رہا لیکن خلیل صاحب واپس نہیں ہوئے۔ بن باس کے وجوہات سے یہ تاثرات الگ نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ گھر آنے کے بعد پشتوں کی روایت ضرور پوری ہوتی لیکن مسائل کا حل نہیں نکل سکتا تھا۔ اس بات کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا تھا کہ پھر علی گڑھ کے لیے واپسی ناممکن ہوجاتی اور حالات کے شکار ہوجاتے۔ ناپسندیدہ ماحول بن کر جکڑ لیتا اور وہ اس کو جکڑ لیتے۔ اگروہیں کے ہوجاتے تو اس دیار کے نودولتی سماج کے اندر ان کا کیا مقام ہوتا۔ ان دنوں علی گڑھ آنا سماجی برتری سمجھی جاتی تھی لیکن خلیل صاحب تو بہتری کے لیے آئے تھے، ایک عظیم مقصد حاصل کرنے کیلئے۔ جہاں ان کو اور بہت سی قربانیاں دینا پڑیں وہاں ترکِ وطن کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔
سیلِ زمانہ جب خلیل صاحب کو بہا کر علی گڑھ لے گیا تو دوستوں کے خطوط کا تانتا بندھ گیا۔ اسی تناسب سے جوابات بھی آتے رہے۔ گویا دوستوں کے خطوط کی کہکشاں جگمگا اٹھی۔ میں نے داستانِ غم لکھنے کے بجائے القاب وآداب وغیرہ لکھنے کے بعد خط کے مضمون کے فاصلے سے نیچے اپنا نام لکھ دیا۔ اس کا جواب یہ تھا۔ خاموش غم ہے اور اس کی اچھوتی نوعیت پر قلم توڑ دیا گیا تھا۔ علی گڑھ پہنچنے کے بعد لوگوں کے مشوروں نے ان کے ارادوں اور خواہشات کودبوچ لیا تھا۔ داخلے کے وقت اپنی مرضی کے خلاف سائنس کے مضامین لینے پڑے۔ لوگ ان کے تعلیمی نتائج سے ضرور واقف تھے لیکن ذہنی رجحانات کے بارے میں کسی کو کیا معلوم تھا۔ ان کے لیے انجینئر یا ڈاکٹر بننا مشکل نہیں تھا لیکن ادب سے دامن چھڑانا مشکل تھا۔ بہت سے لوگ سائنس پڑھنے کے بعد بھی اپنے شاعر بنتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ راہ بھٹکنے کے بعد اصلی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ لیکن خلیل صاحب اپنے مستقبل سے پوری طرح باخبر تھے۔ وہ ادب کے علاوہ سائنس کو خراجِ صلاحیت پیش کرنے کے لیے اپنے کوراضی نہ کرسکے۔ سائنس کے مضامین چھوڑدیے اور اپنے من پسند مضامین اختیار کرلیے۔
ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ زیادہ الجھ گیا تو اس مسئلے کا حل تقسیم قرار پایا۔ تقسیم کے بعد جو چیز ناقابل تقسیم بچ گئی، وہ تھی انسانیت۔ آزادی کی لامحدود وسعتوں میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا۔ انسانوں کے دل بدلے لیکن انسانیت پر کیا گزری اس کا منظر پنجاب اور دلی میں خاص طور سے دیکھا گیا۔ خلیل صاحب ان دنوں دلی میں تھے۔ تعلیمی مسائل کا حل چھٹیوں میں پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ بلڈنگ میں چھٹیوں میں عارضی ملازمت کرلی تھی۔ حالات کے تحت دلی سے علی گڑھ آنا بہتر سمجھا۔ ستمبر ۱۹۴۷ ء میں جیسے ہی ٹرین اسٹیشن سے روانہ ہوئی فسادیوں نے مار کاٹ شروع کردی۔ سامنے کھڑی موت کو دیکھتے ہوئے اپنے کو مسلمان بتلاتے ہوئے جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔ آٹھ زخم کھانے کے بعد چلتی ہوئی ٹرین سے نیچے پھینک دیے گئے اور زندہ بچ گئے۔ کسی طرح جامع مسجد کے ریلیف کیمپ میں لائے گئے جہاں زخمیوں کو دیکھنے گاندھی جی آئے تو خلیل صاحب کی بھی دلجوئی کی۔ پھر ذاکر حسین صاحب کی مدد سے پولیس گاڑی سے جامعہ لائے گئے۔ تین ماہ تک مرہم پٹی ہوتی رہی۔ ٹھیک ہونے کے بعد رفیع احمد قدوائی کے ساتھ علی گڑھ آئے۔ خلیل صاحب کو زندگی ضرور ملی لیکن اس کا جینا آسان کام نہ تھا۔ اس حادثے نے ان کی زندگی کا رخ بالکل موڑ دیا۔ اضطراب، کشمکش اور بے چینی کی لہریں تسلسل کے ساتھ خیالی سطح پر اوپر اٹھتی رہیں۔ راتوں میں بھی فساد زدہ سہمی ہوئی روح نیند کا پیچھا کرتی ہوئی چیخیں مارتی تھی۔ تقسیم کے بعد سب سے بری بلاجدائی کا وہ دور تھا جو تقریباً کم وبیش ہر دل میں اٹھتا تھا علی گڑھ میں خلیل صاحب کی محفل صرف اجڑی نہیں تھی بلکہ غائب ہوگئی تھی۔ وہ احباب پرست تھے اس لیے اس غم کی وجہ سے ان کی زندگی میں اداسی چھا گئی۔ کرب اور آشوب کے ساتھ بکھر کر رہ گئے۔ وہی خلیل صاحب جن کو اپنے آپ کو پالینے میں کبھی ناکامی نہیں ہوئی اب اپنے آپ کو تلاش کرتے ہوئے ڈرنے لگے تھے۔ اس حادثے نے ان کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ افلاس اور غریب الوطنی میں بھی روایت اور مذہبی عقائد ان کے سرپر سایہ فگن رہے۔ لیکن اب برہنہ دھوپ ان کے سرپر تھی۔ خیالات کے مختلف دائرے بننا اور بگڑنا شروع ہوگئے۔ مذہبی انتہا پسندی ختم ہوئی۔ تلاش منزل کی جستجو میں کئی راہیں اختیار کی گئیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب سے ان کی زندگی میں بغاوت کا دور شمار کیا جاتا ہے اور ان کو لامذہب قرار دیا گیا۔ مگر ایسا نہیں تھا جب آدمی کے گھر میں آگ لگتی ہے تو وہ نکل بھاگتا ہے۔ لیکن چھوڑتا نہیں ہے۔ آگ بجھ جانے کے بعد تعمیر شروع ہوتی ہے۔ نئی سج دھج کے بعد وہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ نئے چراغوں کی روشنی سے روشن کیا جاتا ہے۔ اسی دور کی ایک طویل نظم ’’آئینہ خانے میں‘‘ ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے شعلے استبدادیت کو بھون دینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ اس سے نکلتی ہوئی آنچ اژدھے کی زبان کی طرح لپک لپک کر عہد کہن کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کردے گا۔ جذبات عقل وخرد کی سرحدوں سے باہر نظر آتے ہیں۔ اندر کا لا واپھوٹ نکلا ہے اور تشنگی کا سمندر موجزن ہے۔ خطرے میں گھر جانے کے بعد آدمی ارد گرد اینٹ پتھر جو کچھ بھی ہوتا ہے اپنی حفاظت کے لیے اٹھا لیتا ہے۔ اس وقت ناگہانی میں اُن کو کچھ ہاتھ نہیں لگا سوائے غم کے، اسی کو اٹھا لیا۔ یہ غم ان کے وجود، ان کے خیالات، ان کی شاعری اور ان کے ادب کا محافظ بن گیا۔ دنیا میں ادب کے اندر خوشی کے مقابلہ میں غم کو دائمی مقام حاصل ہوتا ہے۔ اس میں خلیل صاحب ہر طرح سے کامیاب ہوئے۔
بی اے پاس کرنے کے بعد اُن کی آمد کا ایک جھونکا وطن میں آیا جو مجھے اڑا کر علی گڑھ لایا۔ میں تعلیم سے منقطع ہو کر زمینداری کے سر بالیں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک روز شام کے وقت آئے اور کہنے لگے کل صبح آپ کو میرے ساتھ علی گڑھ چلنا پڑے گا۔ یہاں رہیے گا تو مقدمہ اور فوجداری کا شکار ہو کر رہ جایئے گا۔ میں نے کہا کس لیے؟ میں وہاں جا کر اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائوں گا۔ کہنے لگے کتابوں کی دکان کھول لی جائے گی۔ اسی پر رہیئے گا جو کچھ روپے مل جائیں ساتھ لے لیجیے گا۔ صبح کو آئے اور علی گڑھ کا سفر شروع ہوگیا۔ ہم لوگوں کے تعلقات کی وجہ سے گھر والے بھی قریب تر ہوگئے تھے۔ دونوں کے والدین نے ایک ایک اولاد کا اضافہ کرلیا تھا۔ اس لیے میرے گھر والوں کو اُن کے ساتھ آنے میں کسی قسم کا عذر نہیں ہوا۔ چند روز ہم لوگ لکھنؤ ٹھہرے جہاں باقر مہدی صاحب بھی ساتھ ہولیے۔ ڈاکٹر علیم صاحب، سرورؔ صاحب اور نیاز فتح پوری سے ملنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر علیم صاحب اُن دنوں لکھنؤ یونیورسٹی میں عربی کے لکچرر تھے۔ شام کے وقت حضرت گنج کانی ہائوس میں بہت سارے شاعر اور ادیب نظر آتے تھے۔ جب علی گڑھ کے لیے روانہ ہوئے تو ڈاکٹر علیم صاحب اسی ٹرین سے علی گڑھ آئے اور میمن صاحب کی جگہ شعبۂ عربی کی سربراہی اُن کے سپرد کی گئی۔ کہاں کی دوکان کہاں کی تجارت۔ خلیل صاحب نے چپکے سے میرا داخلہ کرانے کے بعد چھوڑ دیا۔ نیم تیراک کو بھی جان بچانے کے لیے تیراک بننا ہی پڑتا ہے۔ یہ احساس اب بھی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین یونیورسٹی کے صرف وائس چانسلر ہی نہیں تھے بلکہ طلباء کے لیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے۔ ایک بار یونیورسٹی کے بقایہ کے سلسلے میں مجھے بلایا۔ کچھ گفتگو کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا وعدہ کیجیے کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد آپ یہ رقم یونیورسٹی کو واپس کردیں گے۔ میں نے کہاں کہ کیا اس بات کا یقین ہے کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد فوراً بعد روزگار مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ پھر میں کیسے وعدہ کرتا۔ دوسرے روز اُن کے پی۔ اے مُرید صاحب نے بُلوایا اور کہا کہ سیکڑوں میں جو رقم ہے وہ دے دی جائے گی۔ لیکن پُھٹکر رقم آپ کو دینا ہوگی۔ پھر تو معاملہ آسانی سے طے ہوگیا۔ اس کے علاوہ ایسے نازک وقت میں جن چند شخصیتوں نے صرف میری مدد ہی نہیں کی بلکہ متاثر بھی کیا وہ ہیں پروفیسر خلیق احمد نظامی، پروفیسر عبدالوحید قریشی اور پروفیسر عبدالجمیل قادری۔ ان لوگوں نے خلوص، شفقت اور محبت میں کسی قسم کی کمی نہیں کی۔ ماہ وسال گزرتے رہے۔ اُن کو کون روک سکتا ہے۔ لیکن جب بھی آمنا سامنا ہوتا تو مل کر خوشی حاصل ہوتی اور دل باغ باغ ہوجاتا۔ یہ ہستیاں عجیب دلفریب پیکر تھیں۔ نہ تو ان کے ظاہری وباطنی حُسن میں کوئی فرق تھا نہ شرافتِ قلبی میں کوئی کمی۔
یہاں علی گڑھ میں اُن کے پُرانے ساتھیوں میں علی حماد عباسی، قیوم اور مشتاق احمد (انجم اعظمی) تھے۔ یہاں دوستوں کے اضافے سے دامن بھر گیا۔ بہت سارے نام تو یاد نہیں کیسے بتائوں لیکن کچھ تو یاد ہیں۔ مثلاً باقر مہدی، مثنیٰ رضوی، نعمان احمد صدیقی، جاوید کمال، مختار الدین آرزو، عبدالجمیل قادری، شہباب جعفری، آفتاب عالم، عزیز عالم، تصور، رضی الدین، حسن مثنیٰ انور وغیرہ۔ خلیل صاحب ادیبوں کے ادیب اور یاروں کے یار تھے۔ اُن کی زندگی کی بیل کبھی بغیر دوستوں کے سہارے منڈیر نہیں چڑھی۔ علی گڑھ میں اس سہارے کا سلسلہ یوں رہا۔ باقر مہدی، انجمن اعظمی، حنیف خاں ناشاد اور شہریار، شہریار تو اب بھی اپنے سے زیادہ اُن کے خاندان کا خیال رکھتے ہیں۔ دوستوں کے جھرمٹ سے اُن کو برآمد کیا جاسکتا تھا لیکن الگ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلیل صاحب بزرگانہ رتبے کو نہیں مانتے تھے صرف دوستی کے قائل تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کے دوست شعور کی دہلیز سے آداب بجالائے تھے اور ’’مولانا‘‘ کہتے تھے۔ دوستوں میں زندگی گزارتے نہیں تھے بلکہ وہ خودبخود گزرتی تھی۔ چونکہ بچپن ہی سے اپنے دیکھتے آئے تھے اس لیے زندگی کی معنویت سے کبھی غافل نہیں رہے۔ ناہموار زندگی کے لیے دوستی سب سے ہموار راستہ تھا۔ آج جب کہ وہ موجود نہیں ہیں اُن کے احباب پہلے سے زیادہ دوستی کا حق ادا کرتے ہیں۔ خلیل صاحب کے نقشِ پا ہمیشہ میرے لیے چراغِ راہ بنے رہے۔ لیکن علی گڑھ کے اندر جو تبدیلیاں ان کے اندر آئی تھیں میں ان سے محروم رہا اس لیے قربت کے باوجود خلیل صاحب کے ادبی حلقہ میں شامل نہ ہوسکا، مگر میری نورتنی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ میں ان کے قیمتی ماضی بعید کا امین تھا۔ میری مثال آثار قدیمہ کی مانند تھی، جس کی حفاظت تو ضرور کی جاتی ہے۔ لیکن کسی قسم کے اضافے اور کمی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اعظم گڑھ میں جو ترقی پسندی کی پوپھوٹ رہی تھی اب علی گڑھ کے افق پر وہ سورج چمکنا اور چڑھنا شروع ہوگیا تھا۔ خلیل صاحب لڑکپن کی سرحدیں پار کرچکے تھے۔ اور شعور کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے۔ وہ فن کار جس کے ابھی تک بال وپر نکل رہے تھے اب اس کے پرپھڑ پھڑا کر فضا میں اڑنے کا وقت آگیا تھا۔ اس اڑان کو جیل کا پنجرہ بھی نہیں روک سکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب کی وجہ سے ترقی پسند ادب کے اندر یکسوئی پیدا ہوئی۔ ہر اتوار کی شام میں پی۔ ڈبلیو۔ اے کی میٹنگ ہوتی تھی۔ خلیل صاحب اپنے ساتھ مجھے بھی پابندی سے لے جاتے تھے۔ ایسی پابندی کے ساتھ محمد قاسم صدیقی بھی نظر آتے تھے۔ جو میرے کلاس کے ساتھی تھے۔ کچھ لوگ اپنی نظمیں، غزلیں، افسانے اور مضامین پیش کرتے تھے۔ یہیں پر سب سے پہلے میں نے جذبیؔ صاحب کو ترنم کے ساتھ ’’تقسیم‘‘ نظم پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ اس مجلس کی خاص چیز مباحثہ ہوتی تھی۔ خلیل صاحب اس مباحثہ میں اس طرح حصہ لیتے تھے جیسے کوئی اچھا کھلاڑی بیچ سے گیند نکالتا ہوا سیدھا گول کی طرف بڑھ رہا ہو۔ اس وقت ان کی منفرد صلاحیتوں اور وسعتِ مطالعہ کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا۔ ایک طرف وہ ماضی کے وارث تھے تو دوسری طرف مستقبل کو مرحبا کہنے والے تھے۔ مجلسی کارروائی کے اختتام پر ڈاکٹر علیم صاحب کا مختصر اور جانچ پرکھ کے ساتھ تجزیہ ہوتا تھا جیسے گوتم بدھ اپنے اپدیش کے بعد بھکشوئوں کو شانت اور سنتشٹ کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکے نے ایک غزل سنائی جس کا ایک شعر اب بھی یاد ہے۔؎
جلوئوں میں نہاتا ہے اک تاج محل بن کر
جب حد سے گزرتا ہے محبوب کا غم ساقی
کبھی کبھی معمولی شاعر بھی اچھا شعر کہہ جاتا ہے۔ جس طرح عظیم شاعر خراب شعر بھی کہتے ہیں۔ خلیل صاحب یہاں طالب علمی کے زمانے میں اپنے استاد بھی تھے اور شاگرد بھی۔ ہر معیاری رسالے میں ان کا نام معین مقرر ہوچکا تھا۔ نیاز فتحپوری جو مشکل سے کسی ادبی محراب سے جھک کر گزرنے کے قائل تھے آتش کے سلسلے میں خلیل صاحب سے متاثر ہوچکے تھے۔ لیکن جب بی۔ اے کے طالب علم سے آمنا سامنا ہوا تو ان کو ایسا ہی محسوس ہوا جیسا شبلی کو ابو الکلام آزاد سے ملنے کے بعد ہوا تھا۔ وہ ادبی میدان میں اپنے ساتھ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے۔ دوسروں کو ادبی رس پلا پلا کر ادب کی جادوگری دکھلاتے تھے۔ ادبی نام اور تخلص لوگوں کو اس طرح بانٹتے تھے جیسے لائف بوائے دے رہے ہوں۔ اور للکار رہے ہوں کہ ادب کے سمندر میں چھلانگ لگا دو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک مرتبہ میرا ایک مضمون ’’بچوں کا شاعر‘‘ کے عنوان کے تحت رسالہ آج کل میں چھپا کچھ لوگوں کا خیال ہوا کہ خلیل صاحب نے میرے نام سے چھپوایا ہے۔ لیکن میرے اوپر کسی قسم کا ردِعمل نہیں ہوا تو ان کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ حقیقت ان کو معلوم تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ منجھے ہوئے شاعر اور ادیب ہیں۔ میرے یہاں تو کبھی کبھی ادبی دھوپ چائوں ہوتی ہے، لیکن مجھے خوشی ہے کہ لوگ خاص طور سے پڑھے لکھے لوگ میری اور آپ کی تحریر کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان کو یہ بات اس قدر بھی معلوم ہوئی کہ اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ میری ایک بات ان کے حسن باطنی میں محفوظ تھی جس کا ذکر میری غیر موجودگی میں بیوی بچوں کے درمیان کیا کرتے تھے۔ کہ میں نے ۱۹۴۷ء کے حادثے کے موقع پر پچیس روپے بھیجے تھے۔ کسی غیر مسلم کی معرفت پتہ تھا خط کا مضمون بڑا رقت آمیز تھا۔ اس تیرہ وتاریکی میں مجھے یاد کیا تھا کہ جو کچھ پاس میں ہو فوراً بھیج دو۔ وہ سماں جب یاد آتا ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ خلیل صاحب کو میرے اوپر کتنا بھروسہ تھا۔ اور میں ان کے حالات معلوم کرنے لیے پریشان ہوگیا۔ جذبی صاحب کو خط لکھا جو اب آنے پر کچھ اطمینان ہوا۔
ایم۔ اے پاس کرنے کے بعد یونیورسٹی گزٹ میں نوکری ملی۔ جب اس سے بھی سبکدوش ہوگئے پھر اُن کی سوچوں میں کشتی شروع ہوئی۔ زندگی کی کڑی دھوپ سر پر تھی ایسے میں اپنے دوست حنیف خاں ناشاد کے ساتھ مدارس اور بمبئی کا سفر شروع کیا۔ خیال تھا کہ شاید خواجہ احمد عباس کچھ مدد کریں گے لیکن مایوسی ہوئی تو حنیف خاں ناشاد کے گائوں میں مقیم ہوگئے۔ رشید احمد صدیقی نے تلاش گمشدہ کا اشتہار نکلوا کر ان کو برآمد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ طوفانِ زندگی مدھم ہوا۔ اب وہ علی گڑھ کے اور علی گڑھ ان کا ہوگیا۔
لائبریری کے اندر مولوی مشتاق حسین صاحب سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ وہ ۵ نمبر حالی روڈ پر رہتے تھے۔ خلیل صاحب کا قیام وطعام انہیں کے ساتھ تھا۔ ملے ہوئے کمرے میں مختار الدین آرزو بھی رہا کرتے تھے۔ ایک طرح سے ادبی مسافروں کی منزل تھی۔ آرزو صاحب کا کہنا تھا کہ کسی بھی عنوان پر خلیل صاحب سے بات کرنے کے بعد ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر رضی الدین صاحب میرٹھی کے ذکر کے بغیر ان لوگوں کا ذکر کرنا ناتمام رہے گا۔ وہ تقریباً روزانہ شام کو آفتاب ہوسٹل سے آیا کرتے تھے۔ وہ مختلف مقرروں کی نقل اچھی طرح اتارتے تھے۔ جوشؔ ملیح آبادی سے متعلق مضمون یہیں پر لکھا گیا جو فکر ونظر میں چھپا تھا۔ جس کے بارے میں جوشؔ صاحب کا خیال تھا کہ امریکہ نے روپیہ دے کر لکھوایا ہے۔ اس مضمون کی انوکھی بات یہ تھی کہ اپنی رائے کا اظہار کیے بغیر مورخ کی طرح دوسروں کی رائے اورخیالات کو اکٹھا کردیا تھا۔ کھانا پینا لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا لیکن آم کھانے میں بلاشرکت غیر کے قائل تھے۔ تحقیقی کام بسم اللہ منزل میں مکمل ہوا اور جب آنند بھون میں منتقل ہوگئے تو وہیں پر اس مقالے کے ٹائپ کا کام مکمل ہوا۔ لکھنا شروع کیا تو ایک ماہ کے اندر پورا کر کے چھوڑا، منتشر کاغذات پر لکھتے جاتے تھے۔ ہم سے اور شہریار سے کہتے تھے ذرا پڑھتے جایئے۔ شاید کوئی چیز رہ گئی ہو اسی گھر سے شادی ہوئی۔ اسی دوران نوکری کے سلسلے میں مجھے علی گڑھ چھوڑ کر دلی جانا پڑا اگرچہ اس سے قبل مودھا سے میری تقرری کا خط آیا تھا۔ لیکن خلیل صاحب نے چھپالیا تھا کہ وہاں جاکر میں گمنام ہوجائوں گا۔ پروفیسر سید مقبول احمد صاحب کی شفقت اور محبت سے مجھے ریسرچ میں داخلہ لینا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے علی گڑھ کا رشتہ قائم رہے گا۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی کے خط سے بھی اس قسم کی نشاندہی ہوتی ہے۔
عزیزی!
خطوط مل گئے۔ عنوان برا نہیں ہے۔ لیکن اگر Muslim Education کے بجائے Education ہوتو بہتر ہوگا۔ غالباً یہ ترمیم متعلقہ لوگوں کو منظور نہ ہو۔ بہرحال اب وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کسی نہ کسی مضمون پر کام شروع کردیا جائے۔ اسی عنوان کو قبول کرلو۔
دعانامہ
خلیق احمد نظامی
۲۲ جولائی ۱۹۶۳ء
جس روز ریسرچ کا عنوان ’’مسلمانوں کی روائتی تعلیم‘‘ طے ہوا اسی رات کو صحن میں گھوم گھوم کر لکچر دینا شروع کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسی مضمون کے ماہر ہیں جو کچھ انہوں نے بتلایا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر چیزیں میری تحقیق کی بنیاد بنیں۔ پروفیسر اقتدار عالم خاں صاحب مرزا کامران کے دیوان پر کام کررہے تھے۔ کہیں خلیل صاحب کا ذکر آگیا۔ مفصل گفتگو کے بعد ایک معتبر راوی کی حیثیت سے ایک مورخ کی ذمہ داریوں کو جانتے ہوئے مرزا کامران کے دیوان کی ایک کاپی پیش کی جس کو کلکتہ سے محفوظ الحق صاحب نے ایڈٹ کیا تھا جس کے لیے پروفیسر اقتدار عالم صاحب نے اپنی کتاب میں ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مئی ۱۹۷۱ء میں جب تھیسِ جمع کرنے آیا تو ڈین آفس گیا وہاں الیاس صاحب آفس انچارج تھے۔ انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے بعد اس نام کا کوئی ریسرچ اسکالر داخل نہیں ہوا۔ میں کافی پریشان ہوا تو خلیل صاحب بولے داخلے کے کاغذات کس کے ذریعہ جمع کرائے تھے۔ میں نے کہا شہریار کو دے گیا تھا تو انہوں نے سر پکڑ لیا اور کہا جس کو اپنی خبر نہیں تو پھر انہوں نے آپ کے کاغذات کیا جمع کیے ہوں گے۔ اس کے بعد اپنے طالب علمی کے زمانے کے تمام کاغذات اور رسید لا کر دکھانا شروع کیا اور کہا ریکارڈ اس طرح رکھا جاتا ہے۔ شہریار صاحب بھاگے بھاگے پھرنے لگے ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بارے میں ضرور لاپرواہ ہوں لیکن دوسروں کے بارے میں کافی ذمہ داری کا ثبوت دیتا ہوں دوسرے روز ان کے ساتھ پھر ڈین آفس گیا۔ آفس میں اس وقت ایک معین الدین صاحب تھے ان کو بلا کر کہا ذرا دیکھیے ان کا کیا معاملہ ہے۔ انہوں نے جا کر دیکھا تو میرا نام رجسٹر میں موجود تھا۔ الیاس صاحب جو فیکلٹی آف آرٹس انچارج تھے لوگ ڈین آف ڈفیکلٹی کہتے تھے ان کے لیے آسان کام بنا دینا آسان تھا لیکن مشکل کام کو آسان بنانا مشکل ترین تھا۔ خلیل صاحب کی ہر چیز قاعدے اور قرینے سے رہتی تھی اس لیے ان کے بعد ان کے ورثاء کو کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی۔ پروفیسر محمود الحق صاحب اور دوسرے لوگوں کی مدد اور ہمت افزائی کے بعد میرا تحقیق کا کام مکمل ہوا۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے دوبارہ علی گڑھ آنے کا موقع ملا۔ میرے مودھا جانے کے خلاف تھے لیکن دلی سے علی گڑھ آنے کے لیے کسی قدر بے چین تھے جیسا کہ اس خط سے ظاہر ہوتا ہے۔
۳ اگست ۱۹۷۱ ء
برادرم اخلاق صاحب
آپ کا ۱۲؍ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا۔ تعجب ہے کہ میرا خط آپ کو نہیں ملا۔ ایگز یکٹیو کونسل کی میٹنگ ۲۹ جولائی کو ہوئی میں نے ۱۰ جولائی کی صبح کو ہی آپ کو خط لکھ کر ڈاک کے حوالے کردیا تھا۔ اتفاق سے اسی صبح اقبال انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ فوراً آکر جوائن کرلیں۔ سرکاری طور پر تقرری کے خط کا انتظار نہ کریں۔ اس کے بارے میں کبھی کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے آپ سے تاکید کی تھی کہ آپ یونیورسٹی کھلتے ہی مع سامان کے چلے آئیں۔ میٹنگ ہونے کے دوسرے دن آپ کو جوائن کرادیں گے۔ معلوم نہیں کیوں آپ ان کے کہنے کے باوجود تقرری کے خط کے کیوں منتظر ہیں۔ بہرحال آپ اس خو کو دیکھتے ہی چلے آئیے اور جوائن کرلیجئے۔
آپ کا
خلیل الرحمن اعظمی
۸ اگست ۱۹۷۳ ء کی شام کو یہاں ۳۳ ذاکر باغ میں آگیا اسی رات کو ان کے یہاں ان کی بچی ہما پیدا ہوئی۔ ۹؍ اگست ۱۹۷۱ ء کو میں نے جوائن کرلیا۔ علی گڑھ آنے کے بعد اندھا دھند خلیل صاحب کی صحبت کی طرف لوٹ پڑا۔ مکان بننا شروع ہوا تو ان کے ساتھ اس طرح رہتا تھا کہ لوگوں کو معلوم کرنے کی ضرورت پڑی کہ مکان میرا بن رہا ہے یا ان کا۔ یونیورسٹی کے انجینئر خلیل صاحب کو مشورہ دیتے رہے۔ اور ان کی مرضی کے مطابق کچھ بھی نہیں بنا لیکن انہیں کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ بیماری نے ’’اُردو باغ‘‘ دیکھ لیا تھا، یہاں تک کہ یکم جون ۱۹۷۸ ء کو اپنا کام تمام کردیا۔ سقراط زہر کا پیالہ پی کر زندگی سے بے نیاز ہوگیا۔ استاد کی زندگی کو قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا صرف افلاطون نے محسوس کیا تھا۔ خلیل صاحب کے مرض الموت کی جان کاری کے بعد شہریار کی مسرتوں کا حصار ٹوٹ گیا۔ دھڑکن دھڑکن جیتے رہے۔ زندگی کی جاگتی ہوئی تھکن نے جیسے ان کو سلا دیا کیوں کہ وہ صرف دانائے راز ہی نہیں تھے بلکہ دانائے دل وجان بھی تھے۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ سورج کی رو پہلی کرنیں سنہری نہیں ہوئی تھیں کہ کسی نے افق کے پیچھے سے دوڑ لگا کر سورج کو کھینچ لیا۔ خلیل صاحب دنیاداری میں بالکل کورے تھے۔ وضع داری میں دوسروں کی زیادتیوں کو برداشت کرتے تھے لیکن رعب میں کبھی نہیں آئے۔ منافقت کی چہار دیواری ڈھانے میں ان کو مزہ آتا تھا۔ جس سے دل مل جاتا اس کو ’’عشقیہ انجیل‘‘ دینے اور ’’اسم اعظم‘‘ بتلانے میں دریغ نہیں کرتے تھے۔ نیکی کی مسیحائی کو صرف جانتے نہیں تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ لفظوں کو سجا سجا کر گفتگو کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ سیدھے سادے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ کبھی کبھی کھرورے پن اور تیزی کا ابھی احساس ہوتا تھا۔ ہر صنف میں مقبول تھے۔ زیادہ تر آدمی شروع سے بڑے نہیں ہوتے ہیں بلکہ بنتے بنتے بڑے آدمی بنتے ہیں۔ مگر خلل صاحب شروع ہی سے بڑے آدمی تھے تنگ دست ضرور تھے لیکن انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ان میں زندگی کو خوبصورت بنا لینے اور پالینے کی لگن شروع ہی سے تھی۔ اپنے دل میں کینہ اور نفرت کو جگہ نہیں دیتے تھے۔ ورنہ نیکیوں کے لیے جگہ کہاں باقی رہ جاتی۔ اپنے استاد رشید احمد صدیقی سے محبت کرتے تھے لیکن صداقت استاد سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ فن کو پیشہ نہیں بنایا لیکن غموں کی پناہ گاہ اور اظہار فطرت کی گزرگاہ ضرور بنایا۔ ادب میں بت پرستی کے قائل نہ تھے۔ کبھی نقادوں کی تیورںکی پرواہ نہیں کی۔ مذہب سے کنارہ کش کبھی نہیں ہوئے بلکہ ذہن میں پشتوں کا ایمان جھلکتا رہا۔ کبھی مذہبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ عبادت کا تصور عبادت گاہوں تک محدود نہٰں تھا۔ ہر عمل میں عبادت اور غیر عبادت کی تقسیم کا یقین تھا۔ ایک کشتی پانی کی چھاتی پر صرف اپنا وزن ہی نہیں ڈالتی ہے بلکہ اس کو چیرتی ہوئی اور لہروں کو پاش پاش کرتی ہوئی ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ لیکن خلیل صاحب کی زندگی بغیر کسی پروزن ڈالے ہوئے خوبصورت سے خوبصورت بنتی گئی۔
مصائب اور تلخیوں میں پلے لیکن ان کا شائبہ تک بچوں کی زندگی میں نہیں آنے دیا۔ تین بیٹے کامران، سلمان، عدنان ہیں ایک بیٹی ہما ہے۔ راشدہ بیگم کا زندگی میں داخل ہونا نیک فال ثابت ہوا۔ بکھری ہوئی زندگی میں یک سوئی پیدا ہوئی۔ نور زندگی کی یلغار ہوتے ہی ظلمتِ زندگی نے دم توڑ دیا۔ خلیل صاحب کہا کرتے تھے کہ میں ایسی لڑکی سے شادی کروں گا صورت (س) سے لکھا کرے گی۔ راشدہ بیگم کے پاس اونچی ڈگریاں تو نہیں ہیں لیکن صورت کو ’’سورت‘‘ لکھنے کے بجائے انہوں نے خانگی زندگی کی صورت کو سنوار دیا۔ آج روایتی ڈھنگ سے خلیل صاحب کا غم منانے کے بجائے خوش دلی وزندہ دلی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ ضابطے اور سلیقے کی زندگی میں ذرا بھی فرق نہیں پڑنے دیا۔ ان کے اندر حوصلہ ہمت اور استقلال سے حالات سے نپٹنے کی جرئات پائی جاتی ہے۔ اپنے غموں کو جگانے کے بجائے خود جاگتی اجازت ہوتی ہے۔ اگر مجبوراً کسی کو کوئی چیز دینا پڑی تو تقاضوں کے ساتھ تعاقب کرنے میں تکلف نہیں کرتی ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پیچو (سلمان) سے کام ذرا آسان ہوجاتا ہے۔
خلیل صاحب ساری زندگی کام کرتے کرتے نہ تھکے۔ کام کرنے کا حوصلہ غضب کا پایا تھا۔ جب مرض الموت یعنی بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں گرفتار ہوئے تو افسوس صرف اس بات کا تھا کہ کام ادھورے رہ جائیں گے۔ اسی لیے احساس تھا کہ اکیاون برس کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے۔ یعنی ۹؍ اگست ۱۹۲۷ ء سے یکم جون ۱۹۷۸ ء کا فاصلہ کوئی لمبا فاصلہ نہیں ہے۔ موت ایک حقیقت ہے اس کو مانتے ہوئے بہت سارے کتبے خود لکھ ڈالے۔ اسپتال میں جب شہریار صاحب سے موذی مرض کا ذکر آیا میری زبان سے بے ساختہ نکلا بچوں کا کیا ہوگا؟ خلیل صاحب کوئی منافق نہیں تھے۔ جو ان کے مخالف نہ ہوتے کچھ ان کے موذی مرض کی ٹوہ میں لگ گئے کچھ پریشان ہو کر معلومات حاصل کرنے میں لگ گئے۔ مرض کی تصدیق مجھ سے شہریار سے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہم لوگ یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے کہ ڈاکٹر بہتر جانتے ہیں۔ یکم جون ۱۹۷۸ ء کو مٹی کا کھلونا ٹوٹ گیا۔ کھلونا بنانے والے نے اپنی مرضی سے بنایا پھر توڑا ستمبر ۱۹۴۸ ء میں ٹرین کے اندر منحنی خلیل صاحب سے موت بھی ہار گئی تھی لیکن اب جمِ غفیر سے اطمینان کے ساتھ مسکراتی ہوئی ان کو لے گئی اور کوئی کچھ نہ کرسکا۔ جسم خاکی کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ چہرہ ڈھکا ہوا تھا کھول کر دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زندگی نے رشتہ توڑا نہیں ہے بلکہ دوسری زندگی سے جوڑ لیا ہے۔ برآمدے میں، میں شہریار مبہوت کھڑے تھے۔ موج در موج لوگ آنے لگے پھر وہ رسم ادا ہوئی۔ مٹھی بھر خاک کا صلہ دیا گیا۔ خاموشی کا طوفان لیے ہوئی۔ یہ سب یادوں کی روشنی میں آج بھی فروزاں ہے۔ شاخِ علی گڑھ سے ایک پھل ٹوٹ کر گر گیا اور شاخ اوپر اٹھ گئی۔ پھل تو آئندہ بھی آتے رہیں گے معلوم نہیں شاخ جھک سکے گی یا نہیں۔
ڈاکٹر اخلاق احمد
سرسید نگر، علی گڑھ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)